ہمیں ابو معاویہ نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی: میرا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص صفا مروہ کے مابین سعی نہ کرے تو اسے کوئی نقصان نہیں (اس کا حج وعمرہ درست ہوگا۔) انھوں نے پوچھا: وہ کیوں؟میں نے عرض کی: کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: " بے شک صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سےہیں، "آخرتک، " (پھر کوئی حج کرے یا عمرہ تو اس کو گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کاطواف کرے اور جس نے شوق سے کوئی نیکی کی تو اللہ قدردان ہے سب جانتا ہے۔) "انھوں نےجواب دیا: وہ شخص صفا مروہ کے مابین سعی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس کا حج اور عمرہ مکمل نہیں فرماتا۔اگر بات اسی طرح ہوتی جس طرح تم کہہ رہے ہوتو (اللہ کافرمان) یوں ہوتا: "اس شخص پر کوئی گناہ نہیں جواب دونوں کاطواف نہ کرے۔" کیا تم جانتے ہوکہ یہ آیت کس بارے میں (نازل ہوئی) ہوئی تھی؟بلاشبہ جاہلیت میں انصار ان دو بتوں کے لئے احرام باندھتے تھے جو سمندر کے کنارے پر تھے، جنھیں اساف اور نائلہ کہاجاتا تھا، پھر وہ آتے اور صفا مروہ کی سعی کرتے، پھر سر منڈا کر (احرام کھو ل دیتے)، جب اسلام آیا تو لوگوں نے جاہلیت میں جو کچھ کر تے تھے، اس کی وجہ سے ان دونوں (صفا مروہ) کا طواف کرنا بُرا جانا، کیونکہ وہ جاہلیت میں ان کا طواف کیاکرتے تھے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) فرمایا: اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی: "بلاشبہ صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔"آخر آیت تک۔فرمایا: تو لوگوں نے (پھر سے ان کا) طواف شروع کردیا۔
عروہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعلیٰ عنہ سے عرض کیا، میرا خیال ہے، اگر کوئی آدمی صفا اور مروہ کی سعی نہ کرے، تو یہ چیز اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، انہوں نے پوچھا، کیوں؟ میں نے کہا، کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: (صفا اور مروہ اللہ کے دین کے شعار ہیں، جو شخص حج یا عمرہ کرے، تو اس پر ان کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔) (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 178)