علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 449
´موت کی اطلاع دینا اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا جواز`
”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی خبر وفات اسی روز دی جس روز وہ فوت ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر جنازہ گاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ صف بندی کروائی اور اس پرچار تکبیریں کہیں۔“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 449]
فائدہ: اس حدیث سے کسی کو موت کی اطلاع دینا ثابت ہو رہا ہے اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا جواز بھی معلوم ہو رہا ہے، تاہم یہ مسئلہ آج تک علماء کے مابین مختلف فیہ چلا آ رہا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر ایک میت کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے حتی کہ بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ ہر شام کو نماز جنازہ پڑھے اور نیت یہ کرے کہ ہر اس مسلمان کی نماز جنازہ ہے جو آج روئے زمین پر فوت ہوا ہے۔ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں، صرف اس شخص کی غائبانہ پڑھی جائے جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہ الله نے اسی قول کو راجح قرار دیا ہے، جبکہ ایک تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ہر اس شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے جس نے علم نافع وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں پر احسان کیا ہو، تاہم اس مسئلے کی بابت ہمارے نزدیک راجح اور اقرب الی الصواب بات درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھنا ہے۔
❀ فوت ہونے والا اچھی شہرت اور سیاسی، مذہبی اور علمی حیثیت کا حامل ہو، ہر چھوٹے بڑے کی نماز جنازہ غائبانہ طور پر پڑھنا غیر مسنون ہے۔
❀ غائبانہ نماز جنازہ کی ادائیگی میں سیاسی یا مالی مفادات وابستہ نہ ہوں، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مطلوب ہو۔
❀ اس کے لیے اعلانات، اشتہارات اور بینر وغیرہ لگانا، مخصوص علمائے کرام یا مذہبی و سیاسی قائدین سے نماز جنازہ پڑھوانا، نیز انتظار اور اسی قسم کے دیگر ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا، جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں یہ وبا عام ہے، شرعی طور پر محل نظر ہے، لہٰذا اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
❀ غائبانہ نماز جنازہ کے موقع پر تقاریر یا خطابات کا بھی قطعاً اہتمام نہ ہو، ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔ بصورت دیگر فوت ہونے والے شخص کے لیے صرف دعا کرنا ہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی خصوصی دعاوں میں یاد رکھا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
❀ غائبانہ نماز جنازہ کا طریقہ وہی ہے جو میت سامنے ہونے کی صورت میں نماز جنازہ کا ہے۔ وضاحت:
نجاشی رحمہ الله ”نون“ پر فتحہ اور ”جیم“ مخفف ہے۔ حبشہ کے بادشاہ ہے جیسا کہ روم کے بادشاہ کو قیصر اور ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے تھے۔ نجاشی کا اصل نام اصحمہ بن ابحر تھا۔ کفار مکہ کے فتنے سے اپنے دین کو بچانے کے لیے مسلمانوں نے اسی بادشاہ کے دور میں حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی۔ اسے نبی صلى الله عليه وسلم نے 6 ہجری کے آخر میں یا محرم 7 ہجری میں عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے خط لکھ کر، اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس نے آپ کے مکتوب گرامی کو بوسہ دیا، اسے اپنی آنکھوں سے بھی لگایا، پھر اپنے تخت شاہی سے نیچے اتر آیا اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ ساری صورتحال تحریر کر کے بھجوا دی۔ 9 ہجری کے بعد رجب میں غزوہ تبوک کے بعد وفات پائی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نائب کو بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ بہت سے لوگوں کو ان دونوں خطوط کے بارے میں میں التباس و اختلاط ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 449