حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 1
´امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی فضیلت`
«. . . عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا فَاخْتَلَفُوا فِيهِ، وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ، فَهَذَا يَوْمُهُمُ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْهِمْ فَاخْتَلَفُوا فِيهِ، فَهَدَانَا اللَّهُ لَهُ , فَهُمْ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ فَالْيَهُودُ غَدًا وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ .»
”سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، فرماتے ہیں: ”ہم تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے، فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے پہلے دی گئی تھی، اور ہمیں ان کے بعد۔ پس یہی (جمعہ) ان کا بھی دن تھا جو ان پر فرض کیا گیا۔ (لیکن) ان لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن بتا دیا، اس لیے وہ (اس میں) ہمارے تابع ہو گئے۔ یہود دوسرے دن ہوں گے، اور نصاریٰ تیسرے دن۔“ [صحيفه همام بن منبه/متفرق: 1]
شرح الحدیث:
ہم تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے:
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: «آخِرُونَ» سے مراد زمانہ کے اعتبار سے ہے یعنی ہم آخری امت درجہ میں سب سے پہلے ہیں۔ یہ شرف اس امت کو حاصل ہے کہ وجود کے اعتبار سے یہ امت اگرچہ سب امتوں سے آخر میں آئی ہے، لیکن آخرت میں بقیہ امتوں سے سبقت لے جانے والی ہے، کہ ان کا حشر سب سے پہلے ہو گا، حساب بھی اس امت کا سب سے پہلے ہو گا، سب سے پہلے فیصلہ ان کے بارے میں سنایا جائے گا۔ بقیہ امتوں کی نسبت یہ امت سب سے پہلے جنت میں جائے گی، اس بات کی دلیل سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«نحن الآخرون من اهل الدنيا، والاولون يوم القيامة المقضي لهم قبل الخلائق» [صحيح مسلم، كتاب الجمعه، رقم: 856/22]
”ہم دنیا میں آنے کے اعتبار سے آخر میں ہیں، اور قیامت کے دن درجہ میں سب سے پہلے ہوں گے، سب مخلوقات سے پہلے ہمارے متعلق فیصلہ سنایا جائے گا۔“
آگے امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ”اطاعت و قبول میں سبقت لے جانا۔“ یعنی ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری میں سبقت لے جانے والے ہیں، جب کہ اس نعمت عظمی سے اہل کتاب محروم تھے، ان کا قول قرآن مجید میں مذکور ہے:
«يَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا» [النساء: 46]
”وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔“
فرماتے ہیں ایک اور بھی قول ہے کہ ” «يوم سابق» یعنی جمعہ کے دن“ کی حفاظت کرنا مراد ہے۔ اور پہلا قول زیادہ مضبوط ہے۔ [شرح سنن النسائي: 86,8/1]
ہمارے نزدیک معنوی طور پر تینوں قول ہی درست ہیں، ان میں آپس میں منافات نہیں ہے۔
پس یہ ان کا وہ دن ہے جو ان پر فرض کیا گیا:
اس دن سے مراد جمعہ کا دن ہے کہ جمعہ کا دن پہلے یہودیوں کو دیا گیا۔
ابن ابی حاتم نے سدی کے طریق سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: «إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ» [النحل: 124]
”یقیناً ہفتہ کا دن ان لوگوں کے لیے خاص کیا گیا، جنہوں نے اس بارے میں اختلاف کر ڈالا۔“ کی تفسیر کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ نے یہود پر جعہ کا دن فرض کیا (کہ کام کاج سے چھٹی کے دن وہ اللہ کی عبادت کریں) تو یہود موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے، اور کہنے لگے کہ اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن میں کچھ بھی پیدا نہیں فرمایا، لہٰذا آپ ہمارے لیے یہ دن (عبادت کا) مقرر کر دیں، پھر ان کے لیے ہفتہ کا دن مقرر کر دیا گیا۔“ [تفسير ابن ابي حاتم: 2307/7 - الدر المنثور: 5/ 174-175]
امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہاں سے مراد یہ ہے کہ یہود و نصاری پر جمعہ کے دن کی تعظیم فرض تھی، تو ان لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا، یہودیوں نے کہا کہ ”تعظیم والا دن“ ہفتہ ہے، اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ (آسمان و زمین کی) تخلیق سے فارغ ہوا تھا، تو اس وجہ سے ہم اس (ہفتہ کے) دن آرام کریں گے، کام کاج نہیں کریں گے، بلکہ اللہ کی عبادت اور اس کا شکر ادا کریں گے۔ اور نصاری نے کہا کہ وہ اتوار کا دن ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس دن خلقت کی پیدائش کی ابتداء کی تھی، لہذا یہ دن تعظیم کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے اس دن کا مسلمانوں کو بتلا دیا اور وہ ہفتہ اور اتوار سے پہلے ہے۔ [شرح السنة 202/4]
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: ”اس حدیث میں جمعہ کی فرضیت، اور امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی فضیلت کی دلیل موجود ہے۔“ [شرح مسلم للنووي: 507/2]
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث\صفحہ نمبر: 1