فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1374
´جمعہ کے دن کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اور اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1374]
1374۔ اردو حاشیہ:
➊ بعض روایات میں مزید ذکر ہے کہ اسی دن آدم علیہ السلام فوت ہوئے اور اسی دن قیامت قائم ہو گی۔ کیا ان واقعات کا تعلق بھی جمعے کی فضیلت سے ہے یا انہیں ویسے ذکر کر دیا گیا ہے؟ علماء نے دونوں پہلو اختیار کیے ہیں۔ اگر یہ واقعات فضیلت سے متعلق ہیں تو اخراج آدم اس لیے فضیلت کا سبب ہے کہ ان کا اخراج انبیاء و رسل علیہم السلام کی بعثت کا سبب بنا اور ان کا وجود انسانی فضیلت کا باعث ہے۔ اسی طرح وفات آدم اور قیامت کا واقع ہونا، اللہ تعالیٰ کی ملاقات، دخول جنت اور حصول کرامت کا سبب ہیں۔
➋ ”جمعے کا دن افضل ہے یا عرفے کا دن؟“ علمائے کرام اس کی بابت فرماتے ہیں کہ ہفتے کے دنوں میں سے جمعہ افضل ہے اور سال کے دنوں میں سے عرفے کا دن افضل ہے۔ اس لحاظ سے عرفہ جمعے سے افضل ہے کیونکہ جمعہ بھی تو سال کے دنوں میں شامل ہے، علاوہ ازیں عرفے کا اجتماع جمعے کے اجتماع سے بہت بڑا ہوتا ہے اور مومنین کا اجتماع جتنا بڑا ہو، ثواب اور فضیلت اسی قدر زائد ہوتی ہے، البتہ جمعے کے دن سب اجتماعات جمعہ کو ملایا جائے تو وہ یقیناًً عرفے سے بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اس دن میں ہونے والے اہم واقعات، مثلاً: خلق آدم وغیرہ مزید فضیلت کا تقاضا کرتے ہیں، لہٰذا قطعیت سے کوئی ایک بات کہنا مشکل ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1374
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1431
´جمعہ کے دن کی قبولیت دعا کی گھڑی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں طور پہاڑی پر آیا تو وہاں مجھے کعب (کعب احبار) رضی اللہ عنہ ملے تو میں اور وہ دونوں ایک دن تک ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں (دنیا میں) اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی دن قیامت قائم ہو گی، زمین پر رہنے والی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو جمعہ کے دن قیامت کے ڈر سے صبح کو سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے، سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ کسی مومن کو یہ گھڑی مل جائے اور نماز کی حالت میں ہو اور وہ اللہ سے اس ساعت میں کچھ مانگے تو وہ اسے ضرور دے گا“، کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک دن ہے، میں نے کہا: نہیں، بلکہ یہ گھڑی ہر جمعہ میں ہوتی ہے، تو کعب نے تورات پڑھ کر دیکھا تو کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے، یہ ہر جمعہ میں ہے۔ پھر میں (وہاں سے) نکلا، تو میری ملاقات بصرہ بن ابی بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے پوچھا: آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے، انہوں نے کہا: کاش کہ میں آپ سے وہاں جانے سے پہلے ملا ہوتا، تو آپ وہاں نہ جاتے، میں نے ان سے کہا: کیوں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ فرما رہے تھے: ”سواریاں استعمال نہ کی جائیں یعنی سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف: ایک مسجد الحرام کی طرف، دوسری میری مسجد یعنی مسجد نبوی کی طرف، اور تیسری مسجد بیت المقدس ۱؎ کی طرف۔ پھر میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے کہا: کاش آپ نے مجھے دیکھا ہوتا، میں طور گیا تو میری ملاقات کعب سے ہوئی، پھر میں اور وہ دونوں پورے دن ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنوں میں بہترین دن جمعہ کا دن ہے جس میں سورج نکلا، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں دنیا میں اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول ہوئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی میں قیامت قائم ہو گی، زمین پر کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جو قیامت کے ڈر سے جمعہ کے دن صبح سے سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جس مسلمان کو وہ گھڑی نماز کی حالت میں مل جائے، اور وہ اللہ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور دے گا، اس پر کعب نے کہا: ایسا دن ہر سال میں ایک ہے، تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: کعب نے غلط کہا، میں نے کہا: پھر کعب نے (تورات) پڑھی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے، وہ ہر جمعہ میں ہے، تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: کعب نے سچ کہا، پھر انہوں نے کہا: میں اس گھڑی کو جانتا ہوں، تو میں نے کہا: اے بھائی! مجھے وہ گھڑی بتا دیں، انہوں نے کہا: وہ گھڑی جمعہ کے دن سورج ڈوبنے سے پہلے کی آخری گھڑی ہے، تو میں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: ”جو مومن اس گھڑی کو پائے اور وہ نماز میں ہو“ جبکہ اس گھڑی میں کوئی نماز نہیں ہے، تو انہوں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص نماز پڑھے پھر بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرتا رہے، تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے“، میں نے کہا: کیوں نہیں سنا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا: تو وہ اسی طرح ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1431]
1431۔ اردو حاشیہ:
➊ ”کوہِ طور“ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ قرآن میں اسے ”وادیٔ مقدس“ کہا گیا ہے۔
➋ ”کان لگائے رکھتا ہے“ یعنی توجہ رکھتا ہے اور منتظر رہتا ہے۔ شاید جانوروں کو جمعے کے دن کا علم ہو جاتا ہو گا یا ان میں یہ چیز طبعی ہو گی کہ ہر جمعے کے دن وہ خوف زدہ رہتے ہوں گے اور یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ جانوروں کے سب کام طبعاً اور فطرتاً ہوتے ہیں جب کہ انسان فطرت کے خلاف بھی کام کر لیتا ہے۔
➌ ”ایسی گھڑی ہے“ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت کے مطابق عصر کے بعد آخری گھڑی ہے۔ بعض روایات کے مطابق وہ گھڑی امام کے منبر پر چڑھنے سے لے کر نماز سے فارغ ہونے تک ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے یوں تطبیق دی ہے کہ ساعت یومی تو عصر کے بعد ہی ہے مگر جمعہ میں اجتماع مومنین کی برکت سے خطبہ و نماز کا وقت بھی افضل ہو جاتا ہے، لہٰذا وہ بھی قبولیت کا وقت بن جاتا ہے۔ یہ بھی کہا: جا سکتا ہے کہ کبھی یہ گھڑی ہوتی ہے کبھی وہ۔ اکثر اہل علم نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے۔
➍ ”سواریوں کو کام میں نہ لایا جائے“ یعنی قربت و ثواب کے حصول کے لیے لمبا سفر نہ کیا جائے یہ سمجھ کر کہ فلاں جگہ مقدس ہے۔ وہاں قرب و ثواب زیادہ ہو گا، سوائے ان تین مساجد کے۔ راویٔ حدیث حضرت بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ نے کسی بھی مقدس مقام (خواہ وہ مسجد ہو یا کوئی اور مقام) کی طرف قربت اور ثواب کی نیت سے لمبا سفر کرنا درست نہیں سمجھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی یہی مفہوم درست سمجھا۔ تبھی تو ان کی بات کا انکار نہیں کیا۔ اور یہی مفہوم درست ہے۔ یہ بحث تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے، حدیث: 701۔
➎ بیت المقدس کی مسجد سے مراد بیت المقدس ہی ہے کیونکہ جو جگہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے خاص کی گئی ہے، وہ مسجد ہے۔ اور بیت المقدس بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا۔
➏ ”وہ نماز ہی میں ہے“ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی یہ تاویل ایک فقیہ صحابی کی تاویل ہے جو معتبر ہے لیکن درج ذیل روایت (1433) میں یہ الفاظ ہیں: «قائم یصلی» ”یعنی وہ کھڑا نماز پڑھتا ہو۔“ حالانکہ نماز کا انتظار عموماً بیٹھ کر ہوتا ہے۔ تو علماء نے ان کے درمیان یوں تطبیق دی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قائم کے معنی حضرت عبداللہ بن سلام کی حدیث کی روشنی میں ”ثابت“ کے ہیں، یعنی بیٹھ کر انتظار کرنے کے ہیں کیونکہ عموماً نماز کا انتظار بیٹھ کر ہی کیا جاتا ہے۔ یا پھر یہاں قائم کی قید ”قید و صفی“ ہے، یعنی یہ قید نمازی کی عمومی حالت کے پیش نظر ہے کیونکہ نماز کھڑے ہو کر ہی ادا کی جاتی ہے، لہٰذا مذکورہ الفاظ کی روشنی میں نماز کا انتظار کھڑے ہو کر لازمی قرار نہیں پاتا۔ واللہ أعلم۔ مزید دیکھیے: (التعلیقات السلفیہ (طبع جدید): 333/2، 334)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1431