´ایک سچے شخص کی خبر پر اذان، نماز، روزے فرائض سارے احکام میں عمل ہونا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ خَمْسًا، فَقِيلَ: أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ؟، قَالَ: وَمَا ذَاكَ، قَالُوا: صَلَّيْتَ خَمْسًا، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ . . .» ”. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر کی پانچ رکعت نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا نماز
(کی رکعتوں) میں کچھ بڑھ گیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ صحابہ نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھائی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد دو سجدے
(سہو کے) کئے۔
“ [صحيح البخاري/كِتَاب أَخْبَارِ الْآحَادِ: 7249]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7249 کا باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ الصَّدُوقِ فِي الأَذَانِ وَالصَّلاَةِ وَالصَّوْمِ وَالْفَرَائِضِ وَالأَحْكَامِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں خبر واحد کے بارے میں وضاحت فرمائی کہ اگر کوئی سچا شخص کسی بھی بات کی خبر دے رہا ہو چاہے اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے اس کی بات مقبول ہو گی، تحت الباب جو حدیث سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اس میں خبر واحد کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے بلکہ وہاں پر اس کی نفی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع دینے والے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پانچ رکعت پڑھائی ہیں کئی لوگ تھے . . . . . لہٰذا ان حالات میں ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کس طرح ممکن ہو گی؟
ابن التین رحمہ اللہ باب اور حدیث میں عدم مناسبت کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں کہ:
«بوب لخبر الواحد وهذا الخبر ليس بظاهر فيما ترجم له لأن المخبرين له بذالك جماعة.» [فتح الباري لابن حجر: 203/14]
”امام بخاری رحمہ اللہ نے باب خبر واحد پر قائم فرمایا ہے جبکہ حدیث میں خبر دینے والے جماعت کی صورت میں تھے۔“
علامہ عینی رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«أشار البخاري إلى الرواية الأخرى فى هذه القصة، فان فيها: وما ذاك؟ قال: ”صليت خمساً“ فالقائل واحد، فصدّقه النبى صلى الله عليه وسلم.»
”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو اسی واقعہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، اس میں یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
”کیا بات ہے؟
“ تو ایک صحابی نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں، پس جو قائل تھا وہ خبر واحد کی حیثیت رکھتا تھا تو اس کی تصدیق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔
“
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«و بهذا تحصل المطابقة بين الحديث و الترجمة هنا، إذ الحديثان حديث واحد، عن صحابي واحد فى حادثة واحدة، وقد صنفه النبى صلى الله عليه وسلم و عمل بإخباره لكونه صدوقًا عنده.» [ارشاد الساري: 22/13]
”علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا ایک ہی واقعہ ہے جو دو احادیث میں وارد ہوا ہے، ایک ہی صحابی سے روایت ہے اور ایک ہی معاملہ درپیش آیا تھا، چنانچہ اس ایک صحابی نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ رکعت کی اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمائی اور ان کی خبر پر عمل کیا، کیوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچے تھے۔
“
یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی ترجمۃ الباب کی انواع میں مختلف قسم کی عادات ظاہر ہوتی ہیں، مندرجہ بالا حدیث اور تراجم الابواب اور اس کے متعلقات کی طرف جب دیکھا جاتا ہے تو امام بخاری رحمہ اللہ جب ایک حدیث پیش کرتے ہیں جس میں دو الفاظ حدیث میں وارد ہوتے ہیں تو ہر ایک پر الگ باب قائم فرماتے ہیں اور ہر مسئلے پر باب قائم فرما کر اس کے متعلق حدیث وارد فرماتے ہیں، اور اس حدیث میں دوسری حدیث کی طرف اشارہ کرنا بھی مقصود ہوتا ہے، لہٰذا یہاں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی طریقہ اپنایا ہے کہ اس مقام پر دوسری حدیث کی طرف اشارہ فرمایا جبکہ دونوں احادیث کا بظاہر مخرج ایک ہی ہے، وہ دوسری حدیث جس کی طرف اشارہ مقصود ہے اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ہی صحیح میں ذکر فرمایا ہے۔
کتاب الصلاۃ
«باب إذا صلى خمساً» اس میں یہ الفاظ ہیں کہ
«قال صليت خمساً» کہ
”اس شخص نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں
“، لہذا یہاں قائل ایک ہی ہے اور اس کی خبر خبر واحد کی حیثیت رکھتی ہے، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت قائم ہوتی ہے۔