حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" بعثت بجوامع الكلم ونصرت بالرعب وبينا انا نائم رايتني اتيت بمفاتيح خزائن الارض، فوضعت في يدي، قال ابو هريرة: فقد ذهب رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتم تلغثونها او ترغثونها او كلمة تشبهها".حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، فَوُضِعَتْ فِي يَدِي، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقَدْ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَلْغَثُونَهَا أَوْ تَرْغَثُونَهَا أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے «جوامع الكلم»(مختصر الفاظ میں بہت سے معانی کو سمو دینا) کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب کے ذریعہ کی گئی اور میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس زمین کے خزانوں کی کنجیاں رکھ دی گئیں۔“ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو چلے گئے اور تم مزے کر رہے ہو یا اسی جیسا کوئی کلمہ کہا۔
Narrated Sa`id bin Al-Musaiyab: Abu Huraira said that Allah's Apostle said, "I have been sent with 'Jawami-al-Kalim ' (the shortest expression with the widest meaning) and have been made victorious with awe (cast in my enemy's hearts), and while I was sleeping, I saw that the keys of the treasures of the world were placed in my hand." Abu Huraira added: Allah's Apostle has gone, and you people are utilizing those treasures, or digging those treasures out." or said a similar sentence.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 378
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث567
´تیمم کے مشروع ہونے کا سبب۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین میرے لیے نماز کی جگہ اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 567]
اردو حاشہ: (1) زمین میں مسجد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے لیے مسجد ضروری نہیں مسجد سے باہر بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے، سوائے ممنوعہ مقامات یا ناپاک جگہ کے مثلاً عین راستے پر، قبرستان میں اور بعض دیگر مقامات جن کی تفصیل حدیث: 746، 745، اور 747 میں مذکور ہے۔ لیکن فرض نمازمیں کسی عذر کے بغیر جاعت سے پیچھے رہنا جائز نہیں۔
(2) زمین پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے کا مطلب یہ ہے کہ عذر کے موقع پر وضو اور غسل کے بجائے تیمم سے طہارت حاصل ہوجاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 567
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7273
7273. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں جامع کلمات کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور رعب کے زریعے سے میری مدد کی گئی ہے۔ ایک دفعہ میں سو رہا تھا کہ خود کو خواب میں دیکھا، میرے پاس زمین کے خزانوں کی چابیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھ پر رکھ دی گئیں۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ تو دنیا سے تشریف لے گئے اور تم خزانوں کو نکال رہے ہو یا جمع کر رہے ہو یا اس سے ملتا جلتا کوئی کلمہ ارشاد فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7273]
حدیث حاشیہ: حدیث میں تلغثونھا ہے یہ کلمہ لغیث سے نکلا ہے۔ لغیث کھانے کو جس میں جو ملے ہوں کہتے ہیں یعنی جس طرح اتفاق پڑے کھاتے ہو یا لفظ ترغونھا ہے جو رغث سے نکلا ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں رغث الجدی أمه یعنی بکری کے بچے نے اپنی ماں کا دوھ پی لیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7273
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7273
7273. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں جامع کلمات کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور رعب کے زریعے سے میری مدد کی گئی ہے۔ ایک دفعہ میں سو رہا تھا کہ خود کو خواب میں دیکھا، میرے پاس زمین کے خزانوں کی چابیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھ پر رکھ دی گئیں۔ سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ تو دنیا سے تشریف لے گئے اور تم خزانوں کو نکال رہے ہو یا جمع کر رہے ہو یا اس سے ملتا جلتا کوئی کلمہ ارشاد فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7273]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خزانوں کے متعلق مختلف الفاظ استعمال کے ہیں: (تَنْتَثِلُونَهَا.) حدیث: (2977)(تَنْتَقِلُونَهَا)(حدیث: 6998) ان تمام الفاظ کا مقصد ایک ہی ہے کہ تم ان خزانوں کو نکال کراستعمال کر رہے ہو، خزانوں سے مراد وہ فتوحات ہیں جو مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ملیں۔ بے شمارغنیمتیں ان کے ہاتھ آئیں اور سونے چاندی اور جواہرات کے خزانے ان کے ہاتھ لگے۔ (فتح الباري: 304/13) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جوامع الکلم کی تشریح ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ بہت سے امور جو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کتابوں میں لکھے ہوئے تھے،اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک یادوامور میں جمع کردیا ہے۔ (صحیح البخاري التعبیر، حدیث: 7013)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7273