حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد هو ابن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار مولى الانصار، عن رافع بن خديج، وسهل بن ابي حثمة، انهما حدثاه، ان عبد الله بن سهل، ومحيصة بن مسعود، اتيا خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فجاء عبد الرحمن بن سهل، وحويصة، ومحيصة ابنا مسعود إلى النبي صلى الله عليه وسلم فتكلموا في امر صاحبهم، فبدا عبد الرحمن وكان اصغر القوم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" كبر الكبر" قال يحيى: يعني ليلي الكلام الاكبر، فتكلموا في امر صاحبهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اتستحقون قتيلكم او قال صاحبكم بايمان خمسين منكم؟ قالوا: يا رسول الله، امر لم نره قال:" فتبرئكم يهود في ايمان خمسين منهم" قالوا: يا رسول الله، قوم كفار، فوداهم رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبله، قال سهل: فادركت ناقة من تلك الإبل فدخلت مربدا لهم فركضتني برجلها، قال الليث: حدثني يحيى، عن بشير، عن سهل، قال يحيى: حسبت انه قال: مع رافع بن خديج، وقال ابن عيينة، حدثنا يحيى، عن بشير، عن سهل وحده.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أنهما حدثاه، أن عبد الله بن سهل، ومحيصة بن مسعود، أتيا خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فجاء عبد الرحمن بن سهل، وحويصة، ومحيصة ابنا مسعود إلى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ، فَبَدَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَبِّرِ الْكُبْرَ" قَالَ يَحْيَى: يَعْنِي لِيَلِيَ الْكَلَامَ الْأَكْبَرُ، فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَسْتَحِقُّونَ قَتِيلَكُمْ أَوْ قَالَ صَاحِبَكُمْ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمْرٌ لَمْ نَرَهُ قَالَ:" فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ فِي أَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَوْمٌ كُفَّارٌ، فَوَدَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ، قَالَ سَهْلٌ: فَأَدْرَكْتُ نَاقَةً مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ فَدَخَلَتْ مِرْبَدًا لَهُمْ فَرَكَضَتْنِي بِرِجْلِهَا، قَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرٍ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ يَحْيَى: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: مَعَ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرٍ، عَنْ سَهْلٍ وَحْدَهُ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، وہ ابن زید ہیں، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے انصار کے غلام بشیر بن یسار نے، ان سے رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود خیبر سے آئے اور کھجور کے باغ میں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ عبداللہ بن سہل وہیں قتل کر دیئے گئے۔ پھر عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنے مقتول ساتھی (عبداللہ رضی اللہ عنہ) کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ پہلے عبدالرحمٰن نے بولنا چاہا جو سب سے چھوٹے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بڑے کی بڑائی کرو۔ (ابن سعید نے اس کا مقصد یہ) بیان کیا کہ جو بڑا ہے وہ گفتگو کرے، پھر انہوں نے اپنے ساتھی کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے 50 آدمی قسم کھا لیں کہ عبداللہ کو یہودیوں نے مارا ہے تو تم دیت کے مستحق ہو جاؤ گے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے خود تو اسے دیکھا نہیں تھا (پھر اس کے متعلق قسم کیسے کھا سکتے ہیں؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں سے قسم کھلوا کر تم سے چھٹکارا پا لیں گے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسم کا کیا بھروسہ) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن سہل کے وارثوں کو دیت خود اپنی طرف سے ادا کر دی۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان اونٹوں میں سے (جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیت میں دئیے تھے) ایک اونٹنی کو میں نے پکڑا وہ تھان میں گھس گئی، اس نے ایک لات مجھ کو لگائی۔ اور لیث نے کہا مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر نے اور ان سے سہل نے، یحییٰ نے یہاں بیان کیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بشیر نے «مع رافع بن خديج» کے الفاظ کہے تھے۔ اور سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر نے اور انہوں نے صرف سہل سے روایت کی۔
Narrated Rafi` bin Khadij and Sahl bin Abu Hathma: `Abdullah bin Sahl and Muhaiyisa bin Mas`ud went to Khaibar and they dispersed in the gardens of the date-palm trees. `Abdullah bin Sahl was murdered. Then `Abdur-Rahman bin Sahl, Huwaiyisa and Muhaiyisa, the two sons of Mas`ud, came to the Prophet and spoke about the case of their (murdered) friend. `Abdur-Rahman who was the youngest of them all, started talking. The Prophet said, "Let the older (among you) speak first." So they spoke about the case of their (murdered) friend. The Prophet said, "Will fifty of you take an oath whereby you will have the right to receive the blood money of your murdered man," (or said, "..your companion"). They said, "O Allah's Apostle! The murder was a thing we did not witness." The Prophet said, "Then the Jews will release you from the oath, if fifty of them (the Jews) should take an oath to contradict your claim." They said, "O Allah's Apostle! They are disbelievers (and they will take a false oath)." Then Allah's Apostle himself paid the blood money to them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 164
تستحقون قتيلكم بأيمان خمسين منكم قالوا يا رسول الله أمر لم نره قال فتبرئكم يهود في أيمان خمسين منهم قالوا يا رسول الله قوم كفار فوداهم رسول الله من قبله قال سهل فأدركت ناقة من تلك الإبل فدخلت مربدا لهم فركضتني برجلها
تحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم أو قاتلكم قالوا وكيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطى عقله
تحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم قالوا وكيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطى عقله
يقسم خمسون منكم على رجل منهم فيدفع برمته قالوا أمر لم نشهده كيف نحلف قال فتبرئكم يهود بأيمان خمسين منهم قالوا يا رسول الله قوم كفار قال فوداه رسول الله من قبله
تحلفون خمسين يمينا وتستحقون صاحبكم أو قاتلكم قالوا كيف نحلف ولم نشهد قال فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا وكيف نقبل أيمان قوم كفار فلما رأى ذلك رسول الله أعطاه عقله
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6142
حدیث حاشیہ: حدیث میں قسامت کا ذکر ہے جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ کسی مقتول سے متعلق عینی شہادت نہ ہو تو اس کی قوم کے پچاس آدمی اپنے خیال میں قاتل کا نام لے کر قسمیں کھائیں گے کہ واللہ وہی قاتل ہے تو وہ دیت کے حق دار ہوجائیں گے، یہی قسامت ہے۔ حدیث میں ہرامر میں بڑوں کو مقدم رکھنے کا حکم ہے، باب سے یہی تعلق ہے۔ شریعت اسلامی میں قتل ناحق کا معاملہ کتنا اہم ہے اس سے یہی ظاہر ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6142
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6142
حدیث حاشیہ: (1) کسی مقتول کے متعلق عینی گواہ موجود نہ ہو تو اس کی قوم کے پچاس آدمی گواہی دیں کہ اس کا قاتل فلاں شخص ہے تو وہ دیت کے حق دار ہو سکتے ہیں، یہی قسامت ہے۔ اس کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے بڑے کا اکرام ثابت کیا ہے کہ اسے بات کرنے کا موقع دینا چاہیے، چنا نچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر میں بڑے آدمی کو اس لیے گفتگو کرنے کا حکم دیا کہ واقعے کی پوری طرح صورت و کیفیت واضح ہو جائے بصورت دیگر اصل دعوے دار تو مقتول کے بھائی حضرت عبدالرحمٰن تھے لیکن وہ عمر میں چھوٹے تھے۔ بہرحال ہر معاملے میں بڑوں کو مقدم رکھنے کا حکم ہے ہاں، اگر چھوٹے کے پاس ایسی معلومات ہوں جو بڑوں کے پاس نہیں ہیں تو اسے بات کرنے کا سب سے پہلے موقع دیا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6142
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4716
´اس سلسلے میں سہل کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ میں اختلاف کا ذکر۔` سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نکلے، جب خیبر پہنچے تو کسی مقام پر وہ الگ الگ ہو گئے، پھر اچانک محیصہ کو عبداللہ بن سہل مقتول ملے، انہوں نے عبداللہ کو دفن کیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن ان میں سب سے چھوٹے تھے، پھر اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے عبدالرحمٰن بولنے ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4716]
اردو حاشہ: ”دیت دے دی“ بے گناہ مسلمان مقتول کا خوان رائیگاں نہیں ہوتا، اس لیے آپ نے بیت المال سے دیت ادا فرما دی۔ اس طرح جھگڑا ختم ہوگیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی کامل بصیرت اور معاملہ فہمی تھی ورنہ وہ دیت کے حق دار نہیں تھے کیونکہ وہ خود قسمیں کھانے کے لیے تیار نہیں تھے اور مدعی علیہم کی قسموں کو مانتے نہ تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4716
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4520
´قسامہ کا بیان۔` سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل دونوں خیبر کی طرف چلے اور کھجور کے درختوں میں (چلتے چلتے) دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے، پھر عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے، تو ان لوگوں نے یہودیوں پر تہمت لگائی، ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن سہل اور ان کے چچازاد بھائی حویصہ اور محیصہ اکٹھا ہوئے اور وہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن بن سہل جو ان میں سب سے چھوٹے تھے اپنے بھائی کے معاملے میں بولنے چلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑوں کا لحاظ کرو“(اور انہیں گفتگو کا موقع دو) یا یوں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4520]
فوائد ومسائل: قسامہ قسم سے ماخوذ ہے اور تکرار کے ساتھ قسمیں اٹھانے کے معنی میں ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب کہیں کوئی قتل ہو جائے اور اس قاتل کا علم نہ ہو اور نہ کوئی گواہی موجود ہو، مگر مقتول کے وارث کسی شخص یا اشخاص پر قتل کا دعوی رکھتے ہوں اور اس کے کچھ قرائن بھی موجود ہوں، مثلا ان لوگوں کے مابین دشمنی ہو یا ان کے علاقے میں قتل ہواہو یا کسی کے پاس سے مقتول کا سامان ملے یا اس قسم کی دیگر علامات موجود ہوں تو مدعی لوگ پہلے پچاس قسمیں کھائیں فلاں شخص یا افراد ہمارے آدمی کے قاتل ہیں۔ اس طرح ان کا دعوی ثابت ہو گا، اگر مدعی لوگ قسمیں نہ کھائیں تو مدعاعلیہ پچاس قسمیں کھا کر برمی ہو جائیں گے۔ اگر معاملہ واضح نہ ہو سکے تو بیت المال سے اس مقتول کی دیت ادا کی جائےگی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4520
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1422
´قسامہ کا بیان۔` سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی الله عنہما کہیں جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے، جب وہ خیبر پہنچے تو الگ الگ راستوں پر ہو گئے، پھر محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا، کسی نے ان کو قتل کر دیا تھا، آپ نے انہیں دفنا دیا، پھر وہ (یعنی راوی حدیث) حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن بن سہل ان میں سب سے چھوٹے تھے، وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے (اس معاملہ میں آپ سے) گفتگو کرنا چاہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1422]
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: بیت المال سے یا اپنے پاس سے ادا کر دی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1422
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4342
حضرت سہل بن ابی حثمہ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سھل ابن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید مدینہ سے نکلے اور خیبر پر پہنچ کر الگ الگ ہو گئے، پھر بعد میں محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول حالت میں پایا، اور اسے دفن کر دیا، پھر وہ، حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ تعالی عنہما کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور (مقتول کا بھائی عبدالرحمٰن) تینوں میں سے چھوٹا تھا۔ تو عبدالرحمٰن نے اپنے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4342]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قسامة، بقول قاضی عیاض، حدیث قسامہ، شریعت کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے، اور احکام کے ضابطوں میں سے ایک قاعدہ ہے، اور بندوں کے مصالح کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، جسے تمام ائمہ، صحابہ و تابعین، اور فقہائے امصار نے قبول کیا ہے، ائمہ اربعہ میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا، ہاں بعض تابعین جیسے حکم بن عتیبہ، ابو قلابہ، سالم بن عبداللہ، سلیمان بن یسار اور قتادہ سے قسامہ کا انکار منقول ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور امام بخاری کی طرف سے بھی قاضی عیاض نے اس میلان کی تصریح کی ہے، جبکہ امام بخاری کا باب القسامہ قائم کرنا اور اس میں عمر بن عبدالعزیز کا واقعہ بیان کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ قسامہ کے منکر نہیں تھے، بلکہ قسامہ میں دیت لینے میں بقول حافظ ابن حجر، امام شافعی، کے ہمنوا تھے۔ (فتح الباری، ج 12، ص 297) اور قسمیں لینے میں احناف کے ہمنوا تھے، کہ قسمیں مدعی علیہم سے لی جائیں گی۔ (ج 12، ص 298) بقول مولانا زکریا، احناف کے ہمنوا تھے، کیونکہ احناف کے نزدیک قسامہ کی صورت میں، قسمیں مدعی علیہ کو پڑیں گی، اور اسے ہر صورت میں دیت ادا کرنا ہو گی، قسامہ کے سلسلہ میں ائمہ میں، اس کی تفصیلات میں بہت اختلافات ہیں، اس لیے ہم صرف خلاصہ پیش کرتے ہیں: (الف) شوافع کے نزدیک، اگر مقتول کسی فرد یا افراد کی مملوکہ زمین میں ملتا ہے، کسی جنگل اور بیابان میں نہیں، لیکن اس کے قاتل کا پتہ نہیں چلتا، لیکن مقتول کے ورثاء کسی محلہ یا بستی کے کسی فرد معین یا معین افراد پر کسی ایسے قرینہ ثبوت (دشمنی و عناد) کی بناء پر، جس پر اعتماد و یقین کرنے کا امکان ہو، شبہ کا اظہار کریں، تو پھر قاضی ورثائے مقتول کی بات تسلیم کر کے مدعی یعنی اولیائے مقتول سے پچاس قسمیں لے گا، جس میں وہ قاتل کا تعین کریں گے، اور قتل کی نوعیت کو عمد ہے یا شبہ عمد یا خطا اس کی بھی وضاحت کریں گے، اور اس کے مطابق مدعی علیہ سے قصاص یا دیت وصول کریں گے، اور اگر اولیائے مقتول قسم اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوں، تو پھر مدعی علیہم قسم اٹھائیں گے اور بری الذمہ ہو جائیں گے، اگر اولیائے مقتول کے پاس ثبوت یعنی قرینہ قتل نہ ہو یعنی باہمی دشمنی عناد وغیرہ نہ ہو، تو پھر مدعی کو بینہ پیش کرنا ہو گی یا مدعی علیہم سے قسمیں لی جائیں گی، کہ میں نے یا ہم نے قتل نہیں کیا، اور نہ مجھے یا ہمیں قاتل کا علم ہے، اس طرح وہ بری الذمہ ہو جائیں گے، اگر مدعی علیہم قسمیں نہ اٹھائیں، تو پھر اولیائے مقتول قسمیں اٹھا کر دیت کے حقدار ہوں گے، وگرنہ نہیں، مالکیہ اور حنابلہ کا موقف بھی شوافع والا ہے، لیکن بعض تفصیلات میں فرق ہے، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک قرینہ کی صورت میں مدعی علیہم پچاس قسمیں ہر صورت میں اٹھائیں گے، جب اولیائے مقتول قسم نہ اٹھائیں، اگر قرینہ نہ ہو تو مدعی علیہم ایک ہی قسم اٹھائے گا، اگر مدعی علیہ قسم نہ اٹھائیں تو شوافع کے نزدیک اولیائے مقتول کو دوبارہ قسم اٹھانے کے لیے آمادہ کریں گے، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک ایسا نہیں ہو گا، مالکیہ کے نزدیک ایسی صورت میں مدعی علیہ کو قید کیا جائے گا، حتی کہ وہ قسم اٹھائے، یا اقرار کرے یا پھر قید ہی میں مر جائے، اور حنابلہ کے نزدیک ایک روایت کے مطابق دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی، اور دوسری روایت کی رو سے جسے ابن قدامہ نے ترجیح دی ہے، دیت مدعی علیہ پر ہو گی۔ (ب) ائمہ حجاز اور ائمہ احناف میں فرق۔ ۔ ۔ (1) ائمہ احناف کے نزدیک پہلے قسمیں اٹھانے کا حکم مدعی علیہم کو دیا جائے گا، اور ائمہ حجاز کے نزدیک اگر بینہ نہ ہو تو پھر قسمیں اٹھانے کا حکم پہلے اولیائے مقتول پر پیش کیا جائے گا، اگر وہ انکار کریں، تو پھر مدعی علیہ کو قسمیں اٹھانے کے لیے کہا جائے گا۔ (2) ائمہ حجاز کے نزدیک دعویٰ قتل ایک معین فرد یا معین افراد کے خلاف ہو گا، بلا تعین دعویٰ مسموع نہیں ہو گا اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک بلا تعین کسی اہل محلہ کے خلاف دعویٰ ہو سکتا ہے۔ (3) حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک مدعی علیہم کے ذمہ، صرف دیت ہے، جو احناف کے نزدیک ہر صورت میں مدعی علیہ کے ذمہ ہے، جبکہ شوافع کے نزدیک بعض صورتوں میں وہ بری الذمہ ہوں گے، اور مالکیہ کے نزدیک قرینہ کی صورت میں، جب قتل عمد ہو، تو مدعی علیہ کے ذمہ قصاص ہو گا، اور بقول علامہ عبدالقادر عودہ شہید، قسامہ کو انسانی جان کی حفاظت و صیانت کے لیے مقرر کیا گیا ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ کی شدید خواہش ہے کہ انسان کا خون رائیگاں نہ جائے اور قتل کرنے والا بعض دفعہ ایسی جگہ کا انتخاب کرتا ہے جہاں کوئی اسے دیکھ نہ سکے، اور اس کے خلاف کوئی شہادت قائم نہ ہو سکے، اس لیے اسلامی شریعت نے انسان کی جان کی اہمیت و حفاظت کی خاطر قسامت کا قانون مقرر کیا، اگر حدود و قصاص والی تمام شروط کا استیفا ضروری ٹھہرایا جائے، تو بکثرت قاتل سزا سے بچ جائیں گے، اور لوگوں کے خون و جان محفوظ نہیں رہے گے، لیکن اس مسئلہ کی تفصیلات میں چونکہ علمائے امت میں بہت اختلافات ہیں، اس لیے روح شریعت اور مقاصد شریعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ائمہ کے اقوال کی روشنی میں، نصوص شریعت کو سامنے رکھتے ہوئے، موجودہ ظروف و احوال کے مطابق، لوگوں کے خون و جان کی حفاظت کی خاطر، مناسب قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ (قسامہ کی تفصیلات کے لیے دیکھئے، المغنی، ج 12، ص 188 تا 205، باب القسامہ، تکملہ، ج 2 ص 275 تا 289، القسامہ فی الفقہ الاسلامی محمد شمس مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4342
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4343
حضرت سہل ابن ابی حثمہ اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل خیبر کی طرف گئے، اور کھجوروں میں بکھر گئے، عبداللہ بن سہل کو قتل کر دیا گیا، اور الزام یہود پر لگایا گیا، تو اس کا بھائی عبدالرحمٰن اور اس کے دو چچا زاد حویصہ اور محیصہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن نے جو تینوں میں سے چھوٹے تھے، اپنے بھائی کے واقعہ کے بارے میں گفتگو کرنا چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4343]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) رمة: رسی جس سے قاتل باندھ کر اولیائے مقتول کے حوالہ کیا جاتا ہے۔ (2) مربد: باڑہ جہاں اونٹ باندھے جاتے ہیں۔ فوائد ومسائل: بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے پہلے بینہ پیش کرنے کے لیے کہا، جب انہوں نے اس سے انکار کیا، تو پھر قسمیں اٹھانے کے لیے کہا، اس لیے بعض روایات میں بینہ پیش کرنے کا حکم ہے، قسمیں اٹھانے کی پیشکش کا تذکرہ نہیں ہے، اور بعض میں قسمیں اٹھانے کا ذکر ہے، بینہ کا مطالبہ نہیں ہے، اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ اگر بینہ نہ ہو تو پھر قسمیں اٹھانے کا حق بھی پہلے اولیائے مقتول کو حاصل ہو گا۔ انکار کرنے پر مدعی علیہ فرد یا گروہ سے قسمیں لی جائیں گی۔ (فتح الباري، ج 12، ص 291) شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ، ربیعہ، ابو زناد، لیث اور داود کا یہی نظریہ ہے۔ (القسامہ، ص 85)