مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6103
6103. سیدہ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کہے: اے کافر! تو ان دونوں مین سے ایک ضرور کافر ہو جاتا ہے۔“ عکرمہ بن عمار نے یحییٰ سے، انہوں نے عبداللہ بن یزید سے، انہوں نے ابو سلمہ سے انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے سنا انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6103]
حدیث حاشیہ:
جس کو کافر کہا وہ واقعہ میں کافر ہے تب تو وہ کافر ہے اور جب وہ کافر نہیں تو کہنے والا کافر ہو گیا۔
اسی لئے اہلحدیث نے تکفیر میں بڑی احتیاط برتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتے لیکن متاخرین فقہاء اپنی کتابوں میں ادنیٰ ادنیٰ باتوں پر اپنے مخالفین کی تکفیر کرتے ہیں، صاحب در مختار نے بڑی جرات سے یہ فتویٰ درج کر دیا۔
فلعنة ربنا أعداد رمل علی من رد قول أبي حنیفة یعنی جو حضرت امام ابو حنیفہ کے کسی قول کو رد کر دے اس پر اتنی لعنت ہو جتنے دنیا میں ذرات ہیں۔
کہئے اس اصول کے موافق تو سارے ائمہ دین ملعون ٹھہرے جنہوں نے بہت سے مسائل میں حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو رد کیا ہے۔
خود حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں نے کتنے ہی مسائل میں حضرت امام سے اختلاف کیا ہے تو کیا صاحب درمختار کے نزدیک وہ بھی سب ملعون اور مطرود تھے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو ایسے لوگوں نے پیغمبر سمجھ لیا ہے یا آیت اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ کے تحت ان کو خدا بنا لیا ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایک عالم دین تھے، ان سے کتنے ہی مسائل میں خطا ہوئی وہ معصوم نہیں تھے۔
اس حدیث سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو بلا تحقیق محض گمان کی بنا پر مسلمانوں کو مشرک یا کافر کہہ دیتے ہیں۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6103