حدثنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن سعيد بن ابي سعيد، انه سمع ابا هريرة، يقول:" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد، فجاءت برجل من بني حنيفة، يقال له: ثمامة بن اثال، فربطوه بسارية من سواري المسجد".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ، يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے سعید بن ابی سعید مقبری کے واسطہ سے بیان کیا انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو نجد کی طرف بھیجا تھا۔ وہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو (بطور جنگی قیدی) پکڑ لائے اور مسجد میں ایک ستون سے باندھ دیا۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle sent some horse men to Najd and they brought a man called Thumama bin Uthal from Bani Hanifa. They fastened him to one of the pillars of the mosque.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 458
ما عندك يا ثمامة فقال عندي خير يا محمد إن تقتلني تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل منه ما شئت فترك حتى كان الغد ثم قال له ما عندك يا ثمامة قال ما قلت لك إن تنعم تنعم على شاكر فتركه حتى كان بعد الغد فقال ما عندك يا ثمامة ف
بعث رسول الله خيلا قبل نجد فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال سيد أهل اليمامة فربطوه بسارية من سواري المسجد فخرج إليه رسول الله قال ما عندك يا ثمامة قال عندي يا محمد خير فذكر الحديث قال أطلقوا ثمامة
ماذا عندك يا ثمامة فقال عندي يا محمد خير إن تقتل تقتل ذا دم وإن تنعم تنعم على شاكر وإن كنت تريد المال فسل تعط منه ما شئت فتركه رسول الله حتى كان بعد الغد فقال ما عندك يا ثمامة قال ما قلت لك إن تنعم تنعم على شاكر وإن تقتل تقتل ذا
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 99
´اسلام لانے کے بعد غسل کرنا` «. . . وعن ابي هريرة رضي الله عنه- فى قصة ثمامة بن اثال عندما اسلم- وامره النبى صلى الله عليه وآله وسلم ان يغتسل . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعہ کے متعلق مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غسل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة/باب الغسل وحكم الجنب: 99]
فوائد و مسائل: ➊ کافر جب اسلام کے لیے آمادہ ہو تو پہلے اسے غسل کرنا چاہیے۔ ➋ یہ غسل واجب ہے یا مسنون و مستحب، اس میں بھی علماء کے مابین اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے نزدیک واجب ہے۔ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اسے مستحب سمجھتے ہیں۔
راوئ حدیث: سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ دونوں لفظوں کے پہلے حرف پر ضمہ ہے اور دوسرا حرف تخفیف کے ساتھ ہے۔ یمامہ کے قبیلے بنو حنیفہ کے فرد تھے اور سرداری کے منصب پر فائز تھے۔ عمرہ ادا کرنے نکلے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہ سواروں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ وہ انہیں مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائے اور انہیں مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان انہیں آزاد کر دیا۔ اس کے بعد یہ مسلمان ہو گئے اور اسلام کا بہت عمدہ ثبوت دیا۔ جن دنوں لوگ مرتد ہو رہے تھے یہ بڑی مضبوطی اور ثابت قدمی سے اسلام پر ڈٹے رہے۔ جب ان کی قوم کے لوگ مسلیمہ کذاب کے فتنے کا شکار ہو گئے تو یہ ان کے خلاف بڑے حوصلے اور عزم و ہمت سے ثابت قدم رہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 99
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 713
´قیدی کو مسجد کے کھمبے سے باندھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو قبیلہ نجد کی جانب بھیجا، تو وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی ایک شخص کو (گرفتار کر کے) لائے، جو اہل یمامہ کا سردار تھا، اسے مسجد کے کھمبے سے باندھ دیا گیا، یہ ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 713]
713 ۔ اردو حاشیہ: ➊ آپ کے دور میں کوئی جیل تو تھی نہیں اور اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ کبھی کبھار کوئی قیدی آتا تھا، اس لیے انہیں مسجد کے ستون سے باندھ دیا گیا۔ اس میں ایک اور مقصد بھی تھا کہ وہ مسلمانوں کو عبادت کرتے، چلتے پھرتے اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے دیکھ کر متاثر ہوں اور مسلمان ہو جائیں اور ایسے ہی ہوا۔ وہ مسجد، وہاں اعمال صالحہ کی برکت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے۔ ➋ قصۂ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی یہ روایت تو مختصر ہے لیکن صحیحین میں اس واقعے کی تفصیلی روایت موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4372، و صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 1764]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 713
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:469
469. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے چند سواروں کو نجد کی طرف روانہ فرمایا، وہ لوگ بنوحنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اُثال کو پکڑ لائے اور مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:469]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ حدیث پہلے (462) گزر چکی ہے۔ امام بخاری ؒ اس سے مشرک کے مسجد میں داخل ہونے کا جواز ثابت کر رہے ہیں کہ ثمامہ بن اثال ؓ کو بحالت شرک مسجد میں ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا اور تین دن تک وہ مسجد میں محبوس رہے۔ اس سے مسجد میں مشرک کا قیام ثابت ہوا جس میں دخول کا جواز بدرجہ اولیٰ ثابت ہوا۔ بعض اہل علم نے کہا کہ یہ عنوان مکرر ہے، کیونکہ اس سے پہلے قیدی کو مسجد میں باندھنے کا مسئلہ آیا تھا جو دخول کو لازم ہے، لیکن حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ مذکورہ عنوان میں عمومیت ہے، یعنی اس میں مطلق داخل ہونے کا بیان ہے قطع نظر اس کے کہ اسے باندھا جائے یا آزاد چھوڑا جائے۔ نیز باب سابق میں قیدی کے متعلق عموم ہے کہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ (فتح الباري: 724/1) بہر حال امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ بوقت ضرورت کفار و مشرکین کو بھی آداب مساجد کی شرائط کے ساتھ مسجدوں میں داخلے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ جب مشرکین مکہ غزوہ بدر کے قیدیوں کوچھڑانے کے لیے مدینہ منورہ آئے تو انھوں نے مسجد نبوی ہی میں قیام کیا، کیونکہ ان میں جبیر بن مطعم بھی تھے جو رسول اللہ ﷺ کی دوران جماعت میں سنی ہوئی، قراءت کو بعد میں بیان کرتے تھے کہ آپ نے مغرب کی نماز سورہ الطور پڑھی تھی اور حضرت جبیر بن مطعم ؓ اس وقت مشرک تھے، لہٰذا مشرک کسی ضرورت کے پیش نظر مسجد میں داخل ہو سکتا ہے۔ (شرح ابن بطال: 118/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 469