10. بَابُ قَوْلِهِ: {إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا} :
10. باب: آیت کی تفسیر یعنی ”بیشک صبح کی نماز (فرشتوں کی حاضری) کا وقت ہے“۔
(10) Chapter. The Statement of Allah: “Verily, the recitation of the Quran in the early dawn (i.e., the morning - Fajr prayer) is ever witnessed (attended by the angels in charge of mankind of the day and the night)." (V.17:78)
Narrated Ibn Al-Musaiyab: Abu Huraira said, "The Prophet said, 'A prayer performed in congregation is twenty-five times more superior in reward to a prayer performed by a single person. The angels of the night and the angels of the day are assembled at the time of the Fajr (Morning) prayer." Abu Huraira added, "If you wish, you can recite:-- 'Verily! The recitation of the Qur'an in the early dawn (Morning prayer) is ever witnessed (attended by the angels of the day and the night).' (17.78)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 241
● صحيح البخاري | 4717 | عبد الرحمن بن صخر | فضل صلاة الجميع على صلاة الواحد خمس وعشرون درجة تجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الصبح |
● صحيح البخاري | 477 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الجميع تزيد على صلاته في بيته وصلاته في سوقه خمسا وعشرين درجة إذا توضأ فأحسن وأتى المسجد لا يريد إلا الصلاة لم يخط خطوة إلا رفعه الله بها درجة وحط عنه خطيئة حتى يدخل المسجد إذا دخل المسجد كان في صلاة ما كانت تحبسه وتصلي يعني عليه الملائكة |
● صحيح البخاري | 647 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الرجل في الجماعة تضعف على صلاته في بيته وفي سوقه خمسا وعشرين ضعفا إذا توضأ فأحسن الوضوء ثم خرج إلى المسجد لا يخرجه إلا الصلاة لم يخط خطوة إلا رفعت له بها درجة وحط عنه بها خطيئة إذا صلى لم تزل الملائكة تصلي عليه ما دام في مصلاه اللهم صل عليه |
● صحيح البخاري | 2119 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة أحدكم في جماعة تزيد على صلاته في سوقه وبيته بضعا وعشرين درجة إذا توضأ فأحسن الوضوء ثم أتى المسجد لا يريد إلا الصلاة لا ينهزه إلا الصلاة لم يخط خطوة إلا رفع بها درجة أو حطت عنه بها خطيئة الملائكة تصلي على أحدكم ما دام في مصلاه الذي يصلي فيه |
● صحيح مسلم | 1475 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الجماعة تعدل خمسا وعشرين من صلاة الفذ |
● صحيح مسلم | 1506 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الرجل في جماعة تزيد على صلاته في بيته وصلاته في سوقه بضعا وعشرين درجة إذا توضأ فأحسن الوضوء ثم أتى المسجد لا ينهزه إلا الصلاة لا يريد إلا الصلاة فلم يخط خطوة إلا رفع له بها درجة وحط عنه بها خطيئة حتى يدخل المسجد إذا دخل المسجد كان في صلاة ما كانت |
● صحيح مسلم | 1473 | عبد الرحمن بن صخر | تفضل صلاة في الجميع على صلاة الرجل وحده خمسا وعشرين درجة تجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر |
● صحيح مسلم | 1472 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الجماعة أفضل من صلاة أحدكم وحده بخمسة وعشرين جزءا |
● صحيح مسلم | 1476 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة مع الإمام أفضل من خمس وعشرين صلاة يصليها وحده |
● جامع الترمذي | 216 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الرجل في الجماعة تزيد على صلاته وحده بخمسة وعشرين جزءا |
● سنن أبي داود | 559 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الرجل في جماعة تزيد على صلاته في بيته وصلاته في سوقه خمسا وعشرين درجة إذا توضأ فأحسن الوضوء وأتى المسجد لا يريد إلا الصلاة ولا ينهزه إلا الصلاة لم يخط خطوة إلا رفع له بها درجة وحط عنه بها خطيئة حتى يدخل المسجد إذا دخل المسجد كان في صلاة ما كانت الصلا |
● سنن النسائى الصغرى | 487 | عبد الرحمن بن صخر | تفضل صلاة الجمع على صلاة أحدكم وحده بخمسة وعشرين جزءا يجتمع ملائكة الليل والنهار في صلاة الفجر |
● سنن النسائى الصغرى | 839 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الجماعة أفضل من صلاة أحدكم وحده خمسا وعشرين جزءا |
● سنن ابن ماجه | 786 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الرجل في جماعة تزيد على صلاته في بيته وصلاته في سوقه بضعا وعشرين درجة |
● سنن ابن ماجه | 787 | عبد الرحمن بن صخر | فضل الجماعة على صلاة أحدكم وحده خمس وعشرون جزءا |
● صحيح البخاري | 648 | عبد الرحمن بن صخر | تفضل صلاة الجميع صلاة أحدكم وحده بخمس وعشرين جزءا تجتمع ملائكة الليل وملائكة النهار في صلاة الفجر |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 97 | عبد الرحمن بن صخر | صلاة الجماعة افضل من صلاة احدكم وحده بخمسة وعشرين جزءا |
● المعجم الصغير للطبراني | 199 | عبد الرحمن بن صخر | تزيد صلاة الجماعة على صلاة الرجل وحده خمسا وعشرين |
● المعجم الصغير للطبراني | 223 | عبد الرحمن بن صخر | تفضل صلاة الجميع على صلاة الفذ بخمس وعشرين صلاة |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 97
´نماز باجماعت میں لوگوں کی جتنی اکثریت ہو اتنی افضل ہے`
«. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”صلاة الجماعة افضل من صلاة احدكم وحده بخمسة وعشرين جزءا .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جماعت والی نماز تمہارے اکیلے کی نماز سے پچیس (25) درجے افضل ہے۔“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0: 97]
تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 129/1 ح 287، ك 8 ب 1 ح 2، التمهيد 316/6، الاستذكار: 256
● وأخرجه مسلم 649، من حديث مالك به ورواه البخاري 648، من حديث الزهري عن سعيد بن المسيب و أبى سلمة عن أبى هريره به نحو المعني مطولاً]
تفقه:
➊ صحیح العقیدہ مسلمانوں کی نماز باجماعت میں لوگوں کی جتنی اکثریت ہو اتنی افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وصلاته مع الرجلين ازكٰي من صلاته مع الرجل وما كثر فهو اَّحب إلى الله» اور آدمی کی دو آدمیوں کے ساتھ نماز ایک آدمی کے ساتھ نماز سے بہتر ہے اور جتنی کثرت ہو تو وہ اللہ کے ہاں زیادہ محبوب ہے۔ [مسند أحمد 140/5، وسنده حسن، سنن ابي داود: 554، و صححه ابن خزيمه، وبن حبان، الموارد: 429 وللحديث لون آخر عند ابن ماجه: 790 وغيره وسنده حسن]
تنبیہ: اس حدیث پر حافظ ابن عبدالبر کی جرح مردود ہے۔
➋ جماعت کے بغیر اکیلے شخص کی نماز ہو جاتی ہے لیکن باجماعت پڑھنا افضل ہے۔
➌ بعض روایت میں ستائیس (27) درجے ثواب کا ذکر ہے۔ ان روایات میں کوئی تعارض نہیں بلکہ ہر شخص کو اس کی نیت، خلوص، اتباع سنت اور بہترین عمل کے مطابق اجر ملے گا۔ ان شاء اللہ۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 11
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 477
´ کسی جگہ کا بند ہونا نماز سے نہیں روکتا`
«. . . وَصَلَّى ابْنُ عَوْنٍ فِي مَسْجِدٍ فِي دَارٍ يُغْلَقُ عَلَيْهِمُ الْبَابُ . . .»
”. . . اور عبداللہ بن عون نے ایک ایسے گھر کی مسجد میں نماز پڑھی جس کے دروازے عام لوگوں پر بند کئے گئے تھے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: Q477]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عون کا ایک اثر ذکر فرمایا ہے بعض کا کہنا ہے کہ یہ اثر معلق ذکر فرمایا ہے تعلیق ترجمہ کی دلیل اور مناسبت باب کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی جگہ کا بند ہونا نماز سے نہیں روکتا اس لیے کہ ابن عون نے بند حویلی میں نماز پڑھی اس بندش نے اس کے اندر مسجد بنانے کو منع نہ کیا اسی طرح بازار اگر بند ہوتا ہے تب بھی وہاں نماز درست ہے، ذیل میں جو حدیث پیش فرمائی ہے اس سے بھی ترجمۃ الباب کا مناسبت ہونا واضح ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جماعت کی نماز اس کے گھر اور بازار کی نماز سے پچیس درجہ زیادہ ہے۔“ جب بازار میں انفرادی نماز جائز ہے تو پھر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا بالاولیٰ جائز ہوا۔
اگر غور کیا جائے تو مندرجہ بالا ترجمہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دراصل امام قسطلانی رحمہ اللہ نے مسند بزار کے حوالے سے نقل فرمایا ہے کہ «شر البقاع أسواقها» یعنی بازار بدترین مقامات ہیں اور مساجد بہترین جگہیں۔ لہٰذا اس سے یہ امر ظاہر ہے کہ بازار میں شور و غل، مکر و فریب، جھوٹی قسموں کے بازار گرم ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ جگہ شر اور فساد کا مرکز ہے۔ لہٰذا اس امر سے کسی کو یہ وھم نہ لگ جائے کہ بازار میں نماز ادا کرنا یا مسجد کا بنانا جائز نہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے کہ بازار میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور مسجد السوق کہہ کر یہ بھی واضح کر دیا کہ بازار میں نماز کی جگہ مقرر کرنا بھی جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے سب سے پہلے ابن عون کا اثر ذکر فرمایا تاکہ مسئلہ واضح ہو جائے۔
◈ بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”بازار نماز کی جگہیں نہیں ہیں، مگر ان میں نماز ادا کرنا درست و جائز ہے۔ جس طرح دوسرے مقامات میں نماز جائز ہے۔“
مزید فرماتے ہیں:
«وكذالك الصلاة فى المسجد المحجور فانه جائز فنبه عليه بحديث ابن عمر» [مناسبات تراجم البخاري، ص47]
اسی طرح سے محجور مسجد میں نماز درست ہے جس کی خبر حدیث ابن عمر سے ہوتی ہے۔
تنبیہ:
مندرجہ بالا اثر میں ابن عمر نہیں ہیں بلکہ ابن عون ہیں، بدرالدین بن جماعۃ نے یہ حوالہ صاحب المتواری ابن المنیر سے نقل فرمایا ہے، جب کہ ان سے بھی وہاں سھو ہوا ہے۔ کیونکہ صحیح بخاری کے نسخے میں ابن عمر نہیں ہیں بلکہ ابن عون ہیں۔
فائدہ:
«وقال الكرماني: لعل غرض البخاري منه الرد على الحنفية قالوا بامتناع اتخاذ المسجد فى الدار المحجوبة عن الناس والذي فى كتب الحنفية الكراهية لا التحريم .» [فتح الباري، ج1، ص743]
امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ کو احناف کا رد مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ گھر میں جہاں لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہ ہو مسجد بنانا جائز نہیں حالانکہ حنفیہ کی کتب میں اسے مکروہ لکھا ہے نہ کہ حرام۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 164
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 487
´نماز باجماعت کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جماعت کی نماز تمہاری تنہا نماز سے پچیس گنا فضیلت رکھتی ہے ۱؎ رات اور دن کے فرشتے نماز فجر میں اکٹھا ہوتے ہیں، اگر تم چاہو تو آیت کریمہ «وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا» ۲؎ پڑھ لو“ (الاسراء: ۲۸)۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 487]
487 ۔ اردو حاشیہ:
➊”پچیس گنا“ کیونکہ باجماعت نماز پڑھنے کے لیے انسان کو بہت سے نیک کام زائد کرنے پڑتے ہیں، مثلاً: گھر سے نماز کے ارادے سے نکلنا، دعا پڑھنا، مسجد کی طرف چلنا، راستے میں ملنے والوں سے سلام و جواب کرنا، مریض کی بیمارپرسی کرنا، راستے کوصاف رکھنا، کسی کو راستہ بتانا اور عاجز کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ۔
➋ویسے تو فرشتے ہر نماز میں حاضر ہوتے ہیں مگر چونکہ فجر کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا خصوصی ذکر فرمایا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 487
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث786
´جماعت سے نماز پڑھنے کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا گھر میں یا بازار میں تنہا نماز پڑھنے سے بیس سے زیادہ درجہ افضل ہے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 786]
اردو حاشہ:
(1)
دنیا میں جو ہمیں عمل کی مہلت ملی ہے وہ بہت مختصر سی ہے۔
یہ اللہ تعالی کا خاص فضل ہے کہ اس نے بعض اعمال کا ثواب بہت زیادہ رکھا ہے۔
ہمیں اللہ کی اس رحمت سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے نماز ہمیشہ باجماعت ادا کرنی چاہیے
(2)
اس حدیث میں (بِضْعًا وَعِشْرِينَ)
کا لفظ ہے۔
بضع کا لفظ تین سے نو تک بولا جاتا ہے۔
اس کی وضاحت اگلی حدیثوں سے ہوتی ہے جن میں پچیس گنا اور ستائیس گنا کے الفاظ وارد ہیں۔
(3)
اس عدد کا مطلب یہ ہے کہ ثواب اس حد تک پہنچ سکتا ہے۔
اگر نماز میں توجہ خشوع و خضوع اور اطمینان میں نقص ہوگا تو ثواب میں بھی کمی ہوجائے گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 786
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 216
´باجماعت نماز کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی باجماعت نماز اس کی تنہا نماز سے پچیس گنا بڑھ کر ہے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 216]
اردو حاشہ:
1؎:
پچیس اور ستائیس کے مابین کوئی منافات نہیں ہے،
پچیس کی گنتی ستائیس میں داخل ہے،
یہ بھی احتمال ہے کہ پہلے نبی اکرم ﷺ نے پچیس گنا ثواب کا ذکر کیا ہو بعد میں ستائیس گنا کا،
اور بعض نے کہا ہے کہ یہ فرق مسجد کے نزدیک اور دور ہونے کے اعتبار سے ہے اگر مسجد دور ہو گی تو اجر زیادہ ہو گا اور نزدیک ہو گی تو کم،
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کمی و زیادتی خشوع و خضوع میں کمی و زیادتی کے اعتبار سے ہو گی،
نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فرق جماعت کی تعداد کی کمی و زیادتی کے اعتبار سے ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 216
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4717
4717. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ اور صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔" حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے تھے: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: "اور فجر کا قرآن پڑھنا، یقینا فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4717]
حدیث حاشیہ:
اس میں رات اور دن کے دونوں فرشتے حاضر ہوتے اور پھر اپنی اپنی ڈیوٹی بدلتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4717
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4717
4717. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "نماز باجماعت اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ اور صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔" حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے تھے: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: "اور فجر کا قرآن پڑھنا، یقینا فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4717]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں خصوصیت کے ساتھ فجر کی نماز کا ذکرہے لیکن اس میں عصر کی نماز کی نفی نہیں ہے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے، حالانکہ وہ خوب جانتاہے:
تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ فرشتے کہتے ہیں:
”جب ہم ان کے پاس گئے تھے اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس سے آئے توانھیں نماز پڑھتے ہوئے ہی چھوڑ کر آئے ہیں۔
“ (صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، حدیث: 555)
اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے۔
(باب فضل صلاة العصر)
"نماز عصر کی فضیلت" اور اس حدیث میں یہ الفاظ قابل ملاحظہ ہیں:
"دن اور رات کے فرشتے نماز فجر اور نماز عصر کے وقت جمع ہوتے ہیں۔
" بہرحال اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نماز فجر کی فضیلت کو ثابت کیا ہے، جس سے نماز عصر کی فضیلت کی نفی نہیں ہوتی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4717