Narrated Anas: Some people of the tribe of `Ukl and `Uraina arrived at Medina to meet the Prophet and embraced Islam and said, "O Allah's Prophet! We are the owners of milch livestock (i.e. bedouins) and not farmers (i.e. countrymen)." They found the climate of Medina unsuitable for them. So Allah's Apostle ordered that they should be provided with some milch camels and a shepherd and ordered them to go out of Medina and to drink the camels' milk and urine (as medicine) So they set out and when they reached Al-Harra, they reverted to Heathenism after embracing Islam, and killed the shepherd of the Prophet and drove away the camels. When this news reached the Prophet, he sent some people in pursuit of them. (So they were caught and brought back to the Prophet ). The Prophet gave his orders in their concern. So their eyes were branded with pieces of iron and their hands and legs were cut off and they were left away in Harra till they died in that state of theirs. (See Hadith 234 Vol 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 505
● صحيح البخاري | 3018 | أنس بن مالك | تلحقوا بالذود فانطلقوا فشربوا |
● صحيح البخاري | 5685 | أنس بن مالك | اشربوا ألبانها فلما صحوا قتلوا راعي النبي واستاقوا ذوده فبعث في آثارهم فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم |
● صحيح البخاري | 5686 | أنس بن مالك | يلحقوا براعيه يعني الإبل فيشربوا من ألبانها وأبوالها فلحقوا براعيه فشربوا من ألبانها وأبوالها حتى صلحت أبدانهم فقتلوا الراعي وساقوا الإبل فبلغ النبي فبعث في طلبهم فجيء بهم فقط |
● صحيح البخاري | 5727 | أنس بن مالك | بذود وبراع وأمرهم أن يخرجوا فيه فيشربوا من ألبانها وأبوالها فانطلقوا حتى كانوا ناحية الحرة كفروا بعد إسلامهم وقتلوا راعي رسول الله واستاقوا الذود فبلغ النبي فبعث الطلب في آثارهم وأمر بهم فسمروا أعينهم وقطعوا أيديهم وت |
● صحيح البخاري | 6803 | أنس بن مالك | قطع العرنيين ولم يحسمهم حتى ماتوا |
● صحيح البخاري | 233 | أنس بن مالك | يشربوا من أبوالها وألبانها فانطلقوا فلما صحوا قتلوا راعي النبي واستاقوا النعم فجاء الخبر في أول النهار فبعث في آثارهم فلما ارتفع النهار جيء بهم فأمر فقطع أيديهم وأرجلهم وسمرت أعينهم وألقوا في ال |
● صحيح البخاري | 6804 | أنس بن مالك | تلحقوا بإبل رسول الله فأتوها فشربوا من ألبانها وأبوالها حتى صحوا وسمنوا وقتلوا الراعي واستاقوا الذود فأتى النبي الصريخ فبعث الطلب في آثارهم فما ترجل النهار حتى أتي بهم فأمر بمسامير فأحميت فكحلهم وقطع أيديهم وأرجلهم وما حسمهم ثم ألقوا في |
● صحيح البخاري | 6802 | أنس بن مالك | يأتوا إبل الصدقة فيشربوا من أبوالها وألبانها ففعلوا فصحوا فارتدوا وقتلوا رعاتها واستاقوا الإبل فبعث في آثارهم فأتي بهم فقطع أيديهم وأرجلهم وسمل أعينهم ثم لم يحسمهم حتى ماتوا |
● صحيح البخاري | 6805 | أنس بن مالك | يخرجوا فيشربوا من أبوالها وألبانها فشربوا حتى إذا برئوا قتلوا الراعي واستاقوا النعم فبلغ ذلك النبي غدوة فبعث الطلب في إثرهم فما ارتفع النهار حتى جيء بهم فأمر بهم فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر |
● صحيح البخاري | 4192 | أنس بن مالك | بذود وراع وأمرهم أن يخرجوا فيه فيشربوا من ألبانها وأبوالها فانطلقوا حتى إذا كانوا ناحية الحرة كفروا بعد إسلامهم وقتلوا راعي النبي واستاقوا الذود فبلغ النبي فبعث الطلب في آثارهم فأمر بهم فسمروا أعينهم وقطعوا أيديهم وتر |
● صحيح البخاري | 1501 | أنس بن مالك | يأتوا إبل الصدقة فيشربوا من ألبانها وأبوالها فقتلوا الراعي واستاقوا الذود فأرسل رسول الله فأتي بهم فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم وتركهم بالحرة يعضون الحجارة |
● صحيح مسلم | 4354 | أنس بن مالك | تخرجون مع راعينا في إبله فتصيبون من أبوالها وألبانها |
● صحيح مسلم | 4353 | أنس بن مالك | تخرجوا إلى إبل الصدقة فتشربوا من ألبانها وأبوالها ففعلوا فصحوا ثم مالوا على الرعاة فقتلوهم وارتدوا عن الإسلام وساقوا ذود رسول الله فبلغ ذلك النبي فبعث في أثرهم فأتي بهم فقطع أيديهم وأرجلهم وسمل أعينهم وتركهم في الحرة |
● جامع الترمذي | 73 | أنس بن مالك | سمل النبي أعينهم لأنهم سملوا أعين الرعاة |
● جامع الترمذي | 2042 | أنس بن مالك | اشربوا من ألبانها وأبوالها |
● جامع الترمذي | 1845 | أنس بن مالك | اشربوا من أبوالها وألبانها |
● جامع الترمذي | 72 | أنس بن مالك | اشربوا من ألبانها وأبوالها فقتلوا راعي رسول الله ص |
● سنن أبي داود | 4364 | أنس بن مالك | يشربوا من أبوالها وألبانها فانطلقوا فلما صحوا قتلوا راعي رسول الله واستاقوا النعم فبلغ النبي خبرهم من أول النهار فأرسل النبي في آثارهم فما ارتفع النهار حتى جيء بهم فأمر بهم فقطعت أيديهم وأرجلهم وسمر |
● سنن النسائى الصغرى | 4035 | أنس بن مالك | قطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4039 | أنس بن مالك | قطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم وألقاهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4030 | أنس بن مالك | قطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم ولم يحسمهم وتركهم حتى ماتوا فأنزل الله إنما جزاء الذين يحاربون الله ورسوله |
● سنن النسائى الصغرى | 4034 | أنس بن مالك | قطع أيديهم وأرجلهم وسمل أعينهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4036 | أنس بن مالك | قطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم وتركهم في الحرة حتى ماتوا |
● سنن النسائى الصغرى | 4033 | أنس بن مالك | قطع أيديهم وأرجلهم وسمل أعينهم وصلبهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4032 | أنس بن مالك | قطع أيديهم وأرجلهم وسمل أعينهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4029 | أنس بن مالك | قطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم ونبذهم في الشمس حتى ماتوا |
● سنن النسائى الصغرى | 307 | أنس بن مالك | يشربوا من ألبانها وأبوالها حتى صحوا فقتلوا راعي |
● سنن النسائى الصغرى | 4037 | أنس بن مالك | سمر أعينهم وقطع أيديهم وأرجلهم ثم تركهم في الحرة على حالهم حتى ماتوا |
● سنن النسائى الصغرى | 306 | أنس بن مالك | بذود وراع وأمرهم أن يخرجوا فيها فيشربوا من ألبانها وأبوالها فلما صحوا وكانوا بناحية الحرة كفروا بعد إسلامهم وقتلوا راعي النبي واستاقوا الذود فبلغ النبي فبعث الطلب في آثارهم فأتي بهم فسمروا أعينهم وقطعوا أيديهم وأرجلهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4040 | أنس بن مالك | قطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم |
● سنن ابن ماجه | 2578 | أنس بن مالك | لو خرجتم إلى ذود لنا فشربتم من ألبانها وأبوالها ففعلوا فارتدوا عن الإسلام وقتلوا راعي رسول الله واستاقوا ذوده فبعث رسول الله في طلبهم فجيء بهم فقطع أيديهم وأرجلهم وسمر أعينهم وتركهم بالحرة حتى ماتوا |
● سنن ابن ماجه | 3503 | أنس بن مالك | لو خرجتم إلى ذود لنا فشربتم من ألبانها وأبوالها ففعلوا |
● المعجم الصغير للطبراني | 557 | أنس بن مالك | إذا بعث سرية ، قال : بسم الله وبالله وفي سبيل الله وعلى ملة رسول الله ، لا تغلوا ، ولا تغدروا ، ولا تمثلوا ، ولا تقتلوا الولدان |
● المعجم الصغير للطبراني | 920 | أنس بن مالك | نفرا ، من عرينة قدموا على النبى صلى الله عليه وسلم ، فاجتابوا المدينة ، فأخرجهم النبى صلى الله عليه وسلم إلى إبل الصدقة ، فشربوا من ألبانها فصلحوا ، فاستاقوا الإبل ، وارتدوا عن الإسلام ، فأمر النبى صلى الله عليه وسلم بطلبهم ، فأدركوا ، فقطع أيديهم وأرجلهم ، وسمر أعينهم |
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 306
´حلال جانوروں کے پیشاب کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اپنے اسلام لانے کی بات کی، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہم لوگ مویشی والے ہیں (جن کا گزارہ دودھ پر ہوتا ہے) ہم کھیتی باڑی والے نہیں ہیں، مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں کچھ اونٹ اور ایک چرواہا دے دیا جائے، اور ان سے کہا کہ وہ جا کر مدینہ سے باہر رہیں، اور ان جانوروں کے دودھ اور پیشاب پئیں ۱؎ چنانچہ وہ باہر جا کر حرّہ کے ایک گوشے میں رہنے لگے جب اچھے اور صحت یاب ہو گئے، تو اپنے اسلام لے آنے کے بعد کافر ہو گئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کرنے والوں کو ان کے پیچھے بھیجا (چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور) آپ کے پاس لائے گئے، تو لوگوں نے ان کی آنکھوں میں آگ کی سلائی پھیر دی ۲؎، اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے، پھر اسی حال میں انہیں (مقام) حرہ میں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 306]
306۔ اردو حاشیہ:
➊ چونکہ وہ لوگ صحرائی زندگی کے عادی تھے، اس لیے شہری ماحول انہیں راس نہ آیا اور بدہضمی ہو گئی۔
➋ ”اونٹوں کے پیشاب پیو۔“ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ماکول اللحم جانور، یعنی جس جانور کا گوشت کھانا جائز ہے، اس کا پیشاب پاک ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیشاب پینے کا حکم نہ دیتے۔ ویسے بھی شریعت کے اصول مدنظر رکھے جائیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کیونکہ ماکول اللحم جانور گھروں میں رکھے جاتے ہیں، ان کا دودھ پیا جاتا ہے، ان پر سواری کی جاتی ہے اور ان کی خدمت کرنی پڑتی ہے، اس لیے گھر، کپڑے اور جسم کو ان کے پیشاب اور گوبر سے پاک رکھنا ناممکن ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ دودھ دوہتے وقت وہ پیشاب شروع کر دیں اور پیشاب کا کوئی چھینٹا دودھ میں جا گرے۔ اب اگر ان کے پیشاب اور گوبر کو پلید قرار دیا جائے تو لوگ بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، نیز ان کے پیشاب اور گوبر میں وہ بدبو نہیں ہوتی جو انسان اور حرام جانوروں کی نجاست میں ہوتی ہے، اس لیے دیہات میں لوگ ان جانوروں کے گوبر وغیرہ سے اپنے فرش دیواروں اور چھتوں کو لیپتے ہیں۔ ان کا گوبر بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فطری استعمال ہے کیونکہ مسلم اور غیر مسلم سب اس میں شریک ہیں، لہٰذا ان جانوروں کے پیشاب اور گوبر کے پاک ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں۔
➌ جو حضرات مأکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو پلید سمجھتے ہیں، وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ علاج کی غرض سے پلید چیز کا استعمال جائز ہے، کیونکہ علاج بھی ایک مجبوری ہے۔ یہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے جب کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علاج کی غرض سے بھی اس پیشاب کو جائز نہیں سمجھتے، وہ اس حدیث کو صرف انہی لوگوں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں جنہیں حکم دیا گیا تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے پتہ چلا تھا کہ ان کی شفا پیشاب میں ہے۔ ہم کسی اور مریض کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ اسے لازماًً شفا ہو گی۔ لیکن یہ بات کافی کمزور محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد بھی اس مسئلے میں ان سے متفق نہیں۔
➍ ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنا، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا، انہیں گرم پتھروں پر چھوڑ دینا اور باوجود پانی کی طلب کے انہیں پانی نہ دینا اور ان کا اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جانا بطور قصاص تھا کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ بعینہٖ یہی ظالمانہ سلوک کیا تھا، لہٰذا انہیں بدلہ دیا گیا جو فرض تھا۔ قرآن مجید میں ہے: «كتب عليكم القصاص فى القتلي» [البقرة 178: 2]
”تم پر مقتولوں میں برابری کا بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے۔“
قصاص برابری اور مماثلت کو کہا جاتا ہے، لہٰذا اس پر کوئی اعتراض نہیں اور محدثین کے نزدیک اب بھی اگر قاتل نے مقتول کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا ہو تو قصاص کے حکم کے پیش نظر اور لوگوں کو عبرت دلانے کی خاطر، قاتل کو اسی طریقے سے قتل کیا جائے گا، مگر بعض فقہاء (موالک و احناف) کے نزدیک یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «لاقود الا بالسيف» [سنن ابن ما جه، الديات، حديث: 2668]
یعنی قصاص صرف تلوار کے ایک وار سے لیا جائے گا، مگر یاد رہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ قصاص کے حکم کے خلاف ہے اور باب والی روایت قرآن کے موافق ہے اور سنداًً اعلیٰ درجے کی ہے، لہٰذا محدثین کی بات ہی صحیح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 306
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 307
´حلال جانوروں کے پیشاب کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ عرینہ کے کچھ اعرابی (دیہاتی) آئے، اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، یہاں تک کہ ان کے رنگ زرد ہو گئے، اور پیٹ پھول گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی اونٹنیوں کے پاس بھیج دیا ۱؎ اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے دودھ اور پیشاب پئیں، یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو گئے، تو ان لوگوں نے آپ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا، اور اونٹوں کو ہانک لے گئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ان کے تعاقب میں بھیجا، چنانچہ انہیں پکڑ کر آپ کی خدمت میں لایا گیا، تو آپ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے، اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر دی۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 307]
307۔ اردو حاشیہ:
➊ ”گویا یہ حدیث مرسل ہے۔“ مرسل روایت وہ ہوتی ہے جس میں تابعی یوں کہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا، ایسے کیا۔
➋ ”کفر کی وجہ سے“ دراصل ان کے کئی جرم تھے۔ کفر، قتل، ڈاکا، درندگی۔ ہر جرم کی سزا ضروری تھی، چونکہ کفر سب سے بڑا جرم ہے، اس لیے صرف اس کا ذکر کیا کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، ورنہ صرف کفر کی بنا پر اس طرح قتل نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے یہ سلوک ان کے مجموعی جرائم کی بنا پر کیا گیا جن میں کفر بھی شامل ہے۔
➌ یہ لوگ دو قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ عکل اور عرینہ۔ پہلی روایت میں عکل کا ذکر ہے اور اس میں عرینہ کا۔ یہ کوئی اختلاف نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 438/1، 439، تحت حدیث: 233]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 307
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3503
´اونٹ کے پیشاب کے حکم کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ آئے، انہیں مدینے کی آب و ہوا راس نہ آئی، اور بیمار ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ہمارے اونٹوں کے پاس جا کر ان کے دودھ اور پیشاب پیتے (تو اچھا ہوتا)“، تو انہوں نے ایسا ہی کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3503]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ان افراد میں کچھ قبیلہ عکل کے تھے۔
اور کچھ قبیلہ عرینہ سے تعلق رکھتے تھے۔
(2)
اگرکسی جگہ کی آب وہواموافق نہ ہو تو دوسری مناسب جگہ چلے جانا درست ہے۔
اس کا حکم وبا سے بھاگنے کی کوشش کا نہیں۔
(3)
بیت المال کی کسی چیز کو مالک بنائے بغیر اسے عاریتاً بھی دی جا سکتی ہے۔
تا کہ وہ اس سے حسب ضرور فائدہ اٹھائے۔
(4)
اونٹنیوں کے دودھ میں پیٹ کے بڑھ جانے کا علاج ہے۔
(5)
جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔
ان کاپیشاب علاج کے طور پرپینا جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3503
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 72
´جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہو اس کے پیشاب کا حکم۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، چنانچہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں زکاۃ کے اونٹوں میں بھیج دیا اور فرمایا: ”تم ان کے دودھ اور پیشاب پیو“ (وہ وہاں گئے اور کھا پی کر موٹے ہو گئے) تو ان لوگوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے چرواہے کو مار ڈالا، اونٹوں کو ہانک لے گئے، اور اسلام سے مرتد ہو گئے، انہیں (پکڑ کر) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کٹوا دیئے، ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں اور گرم ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 72]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی اس کا پیشاب نجس نہیں ضرورت پر علاج میں اس کا استعمال جائز ہے،
اور یہی محققین محدثین کا قول ہے،
نا پاکی کے قائلین کے دلائل محض قیاسات ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 72
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4192
4192. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے چند لوگ مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کلمہ توحید پڑھ کر اظہار اسلام کیا اور عرض کرنے لگے: اللہ کے نبی! ہم لوگ مویشی رکھتے ہیں، زرعی زمینوں والے نہیں ہیں۔ انہیں مدینہ طیبہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو رسول اللہ ﷺ نے کچھ اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور حکم دیا کہ شہر سے باہر کھلی فضا میں نکل جائیں اور ان اونٹوں کا دودھ اور پیشاب نوش کریں۔ وہ روانہ ہوئے لیکن حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے برگشتہ ہو گئے اور نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کو جب ان کی خبر ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے تعاقب میں بھیجا (جب وہ انہیں پکڑ کر لائے تو) آپ نے انہیں سزا دینے کا حکم دیا، چنانچہ ان کی آنکھوں میں گرم آہنی سلائیاں پھیری گئیں۔ ان کے ہاتھ کاٹ دئے گئے اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4192]
حدیث حاشیہ:
چرواہے کا نام یسار النوبی ؓ تھا جب قبیلے والے مرتد ہو کر اونٹ لے کر بھاگنے لگے تو اس چرواہے نے مزاحمت کی۔
اس پر انہوں نے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے اور اس کی زبان اور آنکھ میں کانٹے گاڑ دیئے جس سے انہوں نے شہادت پائی۔
رضي اللہ عنه۔
اسی قصاص میں ان ڈاکوؤں کے ساتھ وہ کیا گیا جو روایت میں مذکور ہے۔
یہ ڈاکو ہر دو قبائل عکل اور عرینہ سے تعلق رکھتے تھے۔
حرہ پتھریلا میدان ہے جو مدینہ سے باہر ہے۔
وہ ڈاکو مرض استسقاء کے مریض تھے اس لیے آنحضرت ﷺ نے ان کے واسطے یہ نسخہ تجویز فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4192
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4192
4192. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے چند لوگ مدینہ طیبہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کلمہ توحید پڑھ کر اظہار اسلام کیا اور عرض کرنے لگے: اللہ کے نبی! ہم لوگ مویشی رکھتے ہیں، زرعی زمینوں والے نہیں ہیں۔ انہیں مدینہ طیبہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی تو رسول اللہ ﷺ نے کچھ اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور حکم دیا کہ شہر سے باہر کھلی فضا میں نکل جائیں اور ان اونٹوں کا دودھ اور پیشاب نوش کریں۔ وہ روانہ ہوئے لیکن حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے برگشتہ ہو گئے اور نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کو جب ان کی خبر ملی تو آپ نے چند صحابہ کو ان کے تعاقب میں بھیجا (جب وہ انہیں پکڑ کر لائے تو) آپ نے انہیں سزا دینے کا حکم دیا، چنانچہ ان کی آنکھوں میں گرم آہنی سلائیاں پھیری گئیں۔ ان کے ہاتھ کاٹ دئے گئے اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4192]
حدیث حاشیہ:
1۔
عکل اور عرینہ کے لوگوں نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ تکلیف کے ساتھ اظہار اسلام کیا جیسا کہ روایت کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔
ان کی تعداد آٹھ تھی۔
(صحیح البخاري، الدیات، حدیث: 6899)
جب وہ اونٹ لے کر بھاگنے لگے تو چرواہےنے مزاحمت کی، اس پر انھوں نے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے اور یہی وجہ ہے کہ ان ڈاکوؤں کے ساتھ بطور قصاص ہی کچھ کیا گیا جو انھوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا۔
جب وہ مدینہ طیبہ میں آئے تو مرض استقاء میں مبتلا ہو گئےرسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پینے کا نسخہ تجویز کیا۔
جب وہ تندرست ہو گئے تو انھوں نے مذکورہ گھناؤنی واردات کا ارتکاب کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے تقریباً بیس انصاری نوجوانوں کو ان کے تعاقب میں بھیجا اور ان کے ساتھ ایک کھوجی بھی روانہ کیا۔
(صحیح مسلم، القسامة والحاربین، حدیث: 4353)
حافظ ابن قیم ؒ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں بددعا فرمائی:
”اے اللہ!عریینوں پر راستہ اندھا کردے اور اسے کنگن سے بھی زیادہ تنگ بنا دے۔
“ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی چنانچہ ان پر راستہ تنگ ہو گیا۔
(زاد المعاد: 286/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4192