Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Whoever is made wealthy by Allah and does not pay the Zakat of his wealth, then on the Day of Resurrection his wealth will be made like a baldheaded poisonous male snake with two black spots over the eyes. The snake will encircle his neck and bite his cheeks and say, 'I am your wealth, I am your treasure.' " Then the Prophet recited the holy verses:-- 'Let not those who withhold . . .' (to the end of the verse). (3.180).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 486
● صحيح البخاري | 4565 | عبد الرحمن بن صخر | من آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة يأخذ بلهزمتيه يعني بشدقيه يقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا هذه الآية ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله |
● صحيح البخاري | 4659 | عبد الرحمن بن صخر | يكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع |
● صحيح البخاري | 2378 | عبد الرحمن بن صخر | من حق الإبل أن تحلب على الماء |
● صحيح البخاري | 6957 | عبد الرحمن بن صخر | يكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع يفر منه صاحبه فيطلبه ويقول أنا كنزك قال والله لن يزال يطلبه حتى يبسط يده فيلقمها فاه وقال رسول الله إذا ما رب النعم لم يعط حقها تسلط عليه يوم القيامة فتخبط وجهه بأخفافها |
● صحيح البخاري | 1403 | عبد الرحمن بن صخر | من آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة ثم يأخذ بلهزمتيه يعني شدقيه ثم يقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا ولا يحسبن الذين يبخلون |
● صحيح البخاري | 1402 | عبد الرحمن بن صخر | تأتي الإبل على صاحبها على خير ما كانت إذا هو لم يعط فيها حقها تطؤه بأخفافها وتأتي الغنم على صاحبها على خير ما كانت إذا لم يعط فيها حقها تطؤه بأظلافها وتنطحه بقرونها وقال ومن حقها أن تحلب على الماء قال ولا يأتي أحدكم يوم القيامة بشاة يحملها على رقبته لها |
● صحيح مسلم | 2290 | عبد الرحمن بن صخر | ما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فأحمي عليها في نار جهنم فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره كلما بردت أعيدت له في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار قيل يا |
● صحيح مسلم | 2292 | عبد الرحمن بن صخر | ما من صاحب كنز لا يؤدي زكاته إلا أحمي عليه في نار جهنم فيجعل صفائح فيكوى بها جنباه وجبينه حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار وما من صاحب إبل لا يؤدي زكاتها إلا بطح لها بقاع قرقر كأوفر ما كانت |
● سنن أبي داود | 1658 | عبد الرحمن بن صخر | ما من صاحب كنز لا يؤدي حقه إلا جعله الله يوم القيامة يحمى عليها في نار جهنم فتكوى بها جبهته وجنبه وظهره حتى يقضي الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة مما تعدون ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار وما من صاحب غنم لا يؤدي حقها إلا جاءت |
● سنن النسائى الصغرى | 2450 | عبد الرحمن بن صخر | تأتي الإبل على ربها على خير ما كانت إذا هي لم يعط فيها حقها تطؤه بأخفافها وتأتي الغنم على ربها على خير ما كانت إذا لم يعط فيها حقها تطؤه بأظلافها وتنطحه بقرونها قال ومن حقها أن تحلب على الماء ألا لا يأتين أحدكم يوم القيامة ببعير يحمله على رقبته له رغاء في |
● سنن النسائى الصغرى | 2484 | عبد الرحمن بن صخر | من آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يأخذ بلهزمتيه يوم القيامة فيقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا هذه الآية ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله |
● سنن النسائى الصغرى | 2444 | عبد الرحمن بن صخر | أيما رجل كانت له إبل لا يعطي حقها في نجدتها ورسلها قالوا يا رسول الله ما نجدتها ورسلها قال في عسرها ويسرها فإنها تأتي يوم القيامة كأغذ ما كانت وأسمنه وآشره يبطح لها بقاع قرقر فتطؤه بأخفافها إذا جاءت أخراها أعيدت عليه أولاها في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة |
● سنن ابن ماجه | 1786 | عبد الرحمن بن صخر | تأتي الإبل التي لم تعط الحق منها تطأ صاحبها بأخفافها وتأتي البقر والغنم تطأ صاحبها بأظلافها وتنطحه بقرونها ويأتي الكنز شجاعا أقرع فيلقى صاحبه يوم القيامة يفر منه صاحبه مرتين ثم يستقبله فيفر فيقول ما لي ولك فيقول أنا كنزك أنا كنزك فيتقيه بيده فيلقمها |
● صحيفة همام بن منبه | 72 | عبد الرحمن بن صخر | إذا ما رب النعم لم يعط حقها تسلط عليه يوم القيامة تخبط وجهه بأخفافها |
● صحيفة همام بن منبه | 73 | عبد الرحمن بن صخر | يكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع يفر منه صاحبه ويطلبه ويقول أنا كنزك قال والله لن يزال يطلبه حتى يبسط يده فيلقمها فاه |
● مسندالحميدي | 1095 | عبد الرحمن بن صخر | |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1786
´زکاۃ نہ دینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جن اونٹوں کی زکاۃ نہیں دی گئی وہ آئیں گے اور اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے، اور گائیں اور بکریاں آئیں گی وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندیں گی اور اسے سینگوں سے ماریں گی، اور اس کا خزانہ ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اپنے مالک سے قیامت کے دن ملے گا، اس کا مالک اس سے دور بھاگے گا، پھر وہ اس کے سامنے آئے گا تو وہ بھاگے گا، اور کہے گا: آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑا ہے؟ وہ کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، آخر مالک اپنے ہاتھ کے ذریعہ اس سے اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1786]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خزانے سے مراد سونا چاندی وغیرہ ہے جس کی زکاۃ ادا نہیں کی گئی۔
(2)
انسان دنیا میں روپے پیسےکا لالچ کرتا ہے۔
اس کو حاصل کرنے میں حلال و حرام کی پروا نہیں کرتا اور لالچ کی وجہ سے زکاۃ نہیں دیتا۔
اس قسم کا مال قیامت کو عذاب کا باعث ہوگا کہ انسان اس سے جان چھڑانا چاہے گا لیکن وہ نہیں چھوڑے گا۔
(3)
انسان ہاتھ سے مال لیتا ہے لیکن اسی ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرنا چاہتا، اس لیے ہاتھ کو عذاب ہوگا کہ اس کا خزانہ سانپ بن کر اس کا ہاتھ کاٹ کھائے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔
آمین
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1786
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1658
´مال کے حقوق کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس مال ہو وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز اللہ اسے اس طرح کر دے گا کہ اس کا مال جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے اس کی پیشانی، پسلی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ایک ایسے دن میں فیصلہ فرما دے گا جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھے گا وہ راہ یا تو جنت کی طرف جا رہی ہو گی یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بکریوں والا ہو اور ان کا حق (زکاۃ) ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز وہ بکریاں اس سے زیادہ موٹی ہو کر آئیں گی، جتنی وہ تھیں، پھر اسے ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے کچلیں گی، ان میں کوئی بکری ٹیڑھے سینگ کی نہ ہو گی اور نہ ایسی ہو گی جسے سینگ ہی نہ ہو، جب ان کی آخری بکری مار کر گزر چکے گی تو پھر پہلی بکری (مارنے کے لیے) لوٹائی جائے گی (یعنی باربار یہ عمل ہوتا رہے گا)، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بھی اونٹ والا ہے اگر وہ ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو یہ اونٹ قیامت کے دن پہلے سے زیادہ طاقتور اور موٹے ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ بھی روند چکے گا تو پہلے اونٹ کو (روندنے کے لیے) پھر لوٹایا جائے گا، (یہ عمل چلتا رہے گا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، پھر وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔“ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1658]
1658. اردو حاشیہ: سونے چاندی کی اگر زکواۃ ادا نہ کی جائے۔تو وہ باعث وبال کنز بن جاتا ہے۔ جس کازکر سورۃ توبہ میں ہے۔ <قرآن> (وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ)(التوبہ۔3
➍ 35) اور جو لوگ سونا اور چاندی جوڑ جوڑ کررکھتے ہیں۔اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیں۔جس دن کے اسے جہنم کی آگ سے تپایاجائے گا۔پھر ان سے ان کی پیشانیاں ان کے پہلو اور ان کی کمریں داغی جایئں گی۔ (اور کہا جائے گا) یہی ہے وہ جو تم اپنے لئے سینت سینت کر رکھتے تھے۔اب اسے جوڑنے کا مزہ چکھو
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1658
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1403
1403. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ جسے مال و دولت سے نواز ے اور وہ اس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو اس کا یہ مال قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے گا جس کے دونوں جبڑوں سے زہریلی جھاگ بہہ رہی ہو گی اور وہ طوق کی طرح اس کی گردن میں پڑا ہوگا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا:میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔“ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:(جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور) پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں (کہ یہ بخیلی ان کے حق میں اچھی ہے،نہیں بلکہ یہ ان کے حق میں انتہائی بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1403]
حدیث حاشیہ:
نسائی میں یہ الفاظ اور ہیں۔
ویکون کنز أحدکم یوم القیامة شجاعا أقرع یفرمنه صاحبه ویطلبه أنا کنزك فلا یزال حتی یلقمه أصبع۔
یعنی وہ گنجا سانپ اس کی طرف لپکے گا اور وہ شخص اس سے بھاگے گا۔
وہ سانپ کہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں۔
پس وہ اس کی انگلیوں کا لقمہ بنالے گا۔
یہ آیت کریمہ ان مالداروں کے حق میں نازل ہوئی جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا نہ کرتے، بلکہ دولت کو زمین میں بطور خزانہ گاڑتے تھے۔
آج بھی اس کا حکم یہی ہے جو مالدار مسلمان زکوٰۃ ہضم کرجائیں ان کا یہی حشر ہوگا۔
آج سونا چاندی کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے جو چاندی اور سونے ہی کے حکم میں داخل ہے۔
اب یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ نوٹوں کی گڈیاں بنابناکر رکھتے اور زکوٰۃ نہیں ادا کرتے، ان کے وہی نوٹ ان کے لیے دوزخ کا سانپ بن کر ان کے گلوں کا ہار بنائے جائیں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1403
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1403
1403. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ جسے مال و دولت سے نواز ے اور وہ اس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو اس کا یہ مال قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے گا جس کے دونوں جبڑوں سے زہریلی جھاگ بہہ رہی ہو گی اور وہ طوق کی طرح اس کی گردن میں پڑا ہوگا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا:میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔“ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:(جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور) پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں (کہ یہ بخیلی ان کے حق میں اچھی ہے،نہیں بلکہ یہ ان کے حق میں انتہائی بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1403]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کا اس وعید کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ آیت کو تلاوت کرنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ یہ آیات منکرین زکاۃ کے متعلق نازل ہوئی ہیں، (فتح الباري: 342/3)
یعنی یہ آیت کریمہ ان دولت مند اور مال دار حضرات کے متعلق نازل ہوئی ہے جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکاۃ ادا نہیں کرتے، بلکہ اپنی دولت کو بطور خزانہ جمع کرتے ہیں۔
آج سونے چاندی کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے۔
اب یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ نوٹوں کی گڈیاں بنا بنا کر رکھتے ہیں اور زکاۃ ادا نہیں کرتے، تو یہ نوٹ ان کے لیے دوزخ کے سانپ بن جائیں گے اور پھر انہیں گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔
ایک روایت میں ہے کہ جس شخص کے پاس بھی سونا چاندی ہے اور وہ زکاۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے لیے سونے چاندی کے پترے آگ کے بنائے جائیں گے، پھر دوزخ کی آگ میں انہیں خوب گرم کیا جائے گا اس کے بعد اس کے پہلوؤں، اس کی پیشانی اور اس کی کمر کو داغا جائے گا۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2292(987)
ابن حبان کی روایت میں ہے کہ وہ سانپ اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے کہے گا کہ میں وہی خزانہ ہوں جسے تو دنیا میں چھوڑ آیا تھا حتی کہ وہ اس کی انگلیوں کو پھر اس کے پورے بازو کو چبائے گا حتی کہ اس کا پورا جسم نگل لے گا۔
(صحیح ابن حبان (ابن بلبان)
: 49/8، طبع مؤسسةالرسالة) (2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اپنے مال سے زکاۃ نہ دینے والوں کو دونوں قسم کے عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔
اس کا خزانہ کبھی سانپ کی شکل میں اسے ڈسے گا اور سونے چاندی کے پتروں کو بھی گرم کر کے اس کے جسم کو داغا جائے گا۔
(فتح الباري: 341/3) (3)
جو سانپ انہیں ڈسے گا وہ اس قدر زہریلا ہو گا کہ اس کے سر کا چمڑا اڑ چکا ہو گا۔
اس وجہ سے اسے گنجا کہا جائے گا، کیونکہ سانپ کے بال نہیں ہوں گے جو زہر کی وجہ سے اڑ چکے ہوں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1403