حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث الخزاعي قال: حدثنا علي بن حسين بن واقد، قال حدثني ابي قال: حدثني عبد الله بن بريدة قال: سمعت ابي بريدة، يقول: جاء سلمان الفارسي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قدم المدينة بمائدة عليها رطب فوضعها بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «يا سلمان ما هذا؟» فقال: صدقة عليك وعلى اصحابك، فقال: «ارفعها، فإنا لا ناكل الصدقة» قال: فرفعها، فجاء الغد بمثله، فوضعه بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: «ما هذا يا سلمان؟» فقال: هدية لك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه: «ابسطوا» حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ، يَقُولُ: جَاءَ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ بِمَائِدَةٍ عَلَيْهَا رُطَبٌ فَوَضَعَهَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «يَا سَلْمَانُ مَا هَذَا؟» فَقَالَ: صَدَقَةٌ عَلَيْكَ وَعَلَى أَصْحَابِكَ، فَقَالَ: «ارْفَعْهَا، فَإِنَّا لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ» قَالَ: فَرَفَعَهَا، فَجَاءَ الْغَدَ بِمِثْلِهِ، فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا هَذَا يَا سَلْمَانُ؟» فَقَالَ: هَدِيَّةٌ لَكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: «ابْسُطُوا»
عبداللہ بن بریدۃ کہتے ہیں میں نے اپنے والد سیدنا بریدۃ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے، تو سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دستر خوان لے کر آئے، جس میں کچھ تروتازہ کھجوریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسے رکھ دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے سلمان! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: یہ آپ کے لئے اور آپ کے صحابہ کرام کے لئے صدقہ ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اٹھا لو، ہم صدقہ نہیں کھاتے۔“(راوی کہتا ہے) انہوں نے وہ دسترخوان اٹھا دیا۔ پھر دوسرے دن اسی طرح وہ ایک دسترخوان لائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”سلمان یہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آپ کے لئے ہدیہ ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: ”اس کو بچھا دو۔“ پھر سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر مہر دیکھ کر آپ پر ایمان لے آئے۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ چونکہ یہود کے غلام تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اتنے اور اتنے درہموں کے بدلے خرید لیا، نیز اس عوض میں کہ سلمان ان یہود کو کچھ کھجوروں کے پودے لگا کر دیں پھر ان کے پھل آور ہونے اور کھائے جانے کے قابل ہونے تک اس میں کام بھی کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بابرکت ہاتھ سے سارے پودے لگائے، صرف ایک پودا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لگایا، تو باقی تمام پودے پہلے سال ہی پھلدار ہو گئے صرف ایک پودا ثمرآور نہیں ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا وجہ ہے؟ یہ ایک پودا کیوں ثمر آور نہیں ہوا؟“ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میں نے لگایا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اکھیڑ کر دوبارہ لگا دیا تو وہ اسی سال پھلدار ہو گیا۔