صحيفه همام بن منبه کل احادیث 139 :حدیث نمبر

صحيفه همام بن منبه
सहीफ़ा हम्माम इब्न मुनब्बिह
متفرق
विभिन्न हदीसें
44. امام کی اقتداء ضروری ہے
४४. “ इमाम की पैरवी करना ज़रूरी है ”
حدیث نمبر: 44
Save to word مکررات اعراب Hindi
((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما الإمام ليؤتم به فلا تختلفوا عليه، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد، فإذا سجد فاسجدوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا اجمعين"((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، فَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام اسی لیے ہوتا ہے کہ (نماز میں) اس کی اقتداء کی جائے، اس کی خلاف ورزی نہ کرو، چناچہ جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم اللہ اکبر کہو جب وہ رکوع کرے تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم (اس کے جواب میں) اللھم ربنا لک الحمد کہو، جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “इमाम इसी लिए होता है कि (नमाज़ में) उस की इक़्तदा यानि पैरवी की जाए, उस के विपरीत न करो, इस लिए जब वह “अल्लाहु अकबर” « اللہ اکبر » कहे तो तुम “अल्लाहु अकबर” « اللہ اکبر » कहो जब वह रुकू करे तुम भी रुकू करो। जब वह “समी अल्लाहु लिमन हमिदह” « سمع الله لمن حمده » कहे तो तुम “अल्लाहुम्मा रब्बना लक अल-हम्द” « اللھم ربنا لک الحمد » कहो, जब वह सज्दा करे तो तुम भी सज्दा करो और जब इमाम बैठ कर नमाज़ पढ़े तो तुम भी बैठ कर नमाज़ पढ़ो।”

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: كتاب الأذان، باب إقامة الصف من تمام الصلوٰة، رقم: 722، حدثنا عبدالله بن محمد: حدثنا عبدالرزاق: أخبرنا معمر عن همام عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم، أنه قال:.... - صحيح مسلم، كتاب الصلاة، باب ائتمام المأموم بالإمام، رقم: 931، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر عن همام بن منبه، عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم بمثله.... - مسند أحمد: 55/16، رقم: 44/8141 - مصنف عبدالرزاق: 461/2، باب هل يؤم الرجل جالسًا - شرح السنة: 321/3، 322، باب إذا صلى الإمام قاعدًا، وقال: هذا حديث متفق على صحته.»

صحیفہ ہمام بن منبہ کی حدیث نمبر 44 کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   44  
شرح الحديث:
اس فرمانِ نبوى صلى الله عليه وسلم سے امام کی عظمت و مرتبت کا ثبوت ملتا ہے کہ احوالِ نماز میں اپنے امام کی پوری صداقت سے اتباع اور اقتداء کی جائے، تاکہ اسے اپنا مقتدیٰ اور متبوع بنانے کا مقصد پورا پورا حاصل ہو جائے۔
بنابریں یہ بات بھی مستحضر رہے کہ دوران نماز مقتدی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے امام سے کسی معاملہ میں سبقت یا برابری کرے، بلکہ ہر معاملہ میں اپنے امام کی اتباع کرے۔
لیکن یہ بات یاد رہے کہ امام کی اتباع نماز میں صرف ظاہری افعال پر موقوف ہے، جیسا کہ اس بات کی نشاندہی فرمانِ نبوى صلى الله عليه وسلم سے ملتی ہے، «اِذَا رَكَعَ» جب وہ رکوع کرے وغیرہ۔ دیکھئے! [فتح الباري: 178/2]
اس وضاحت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس سے رکوع، سجدہ، قیام اور قعدہ وغیرہ مراد ہے نہ کہ باطنی افعال، جیسا کہ تسبیحات وغیرہ۔

امام اور مقتدیوں کا "سمع الله لمن حمدہ ربنا ولك الحمد" کہنا:
رکوع سے اٹھتے وقت امام اور مقتدی "سمع الله لمن حمدہ ربنا ولك الحمد" کہیں، یہی درست بات ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث کا عموم اس پر دلالت کرتا ہے۔ آپ کی حالت امامت کو بھی شامل ہے اور حالت اقتداء کو بھی۔ اگرچہ آپ امام ہوا کرتے تھے لیکن عبد الرحمن بن عوف رضی الله عنہ کی اقتداء میں بھی آپ نے نماز ادا کی، جیسا کہ مسلم اور ابوداؤد میں حدیث موجود ہے۔ [صحيح مسلم، كتاب الصلوٰة، رقم: 321/105 - سنن ابو داود، باب المسح على الخفين، رقم: 149]
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
«اِذَا قَالَ الْاِمَامُ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ»
"جب امام "سمع الله لمن حمدہ" کہے تو تم "ربنا لك الحمد" کہو۔ لہذا امام تو "سمع الله لمن حمدہ" کہے اور مقتدی صرف "ربنا لك الحمد" کہے۔ "
امام بیہقی رحمة الله علیه فرماتے ہیں:
«وَلَا حُجَّةَ لَهُمْ فِيْهِ لِاَنَّهُ اَمَرَ بِاَنْ يَّقُوْلُ: اَللّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَنَحْنُ نَقُوْلُهُ فَاَمَّا اِذَا قَالَ مَعَهُ غَيْرَهُ فَلَيْسَ بِمَذْكُوْرٍ فِىْ هٰذَا ..........» [مختصر خلافيات، للبيهقي: 393/1]
"ان لوگوں کے لیے اس حدیث میں دلیل نہیں ہے، لہذا آپ نے "ربنا لك الحمد" کہنے کا حکم دیا ہے اور ہم یہ کہتے ہیں لیکن جب امام کے ساتھ "سمع الله لمن حمدہ" کوئی اور کہے یہ اس حدیث میں ذکر نہیں ہوا۔ "
اور یہ بات اصول میں طے ہے کہ عدم ذکر نفی کی دلیل نہیں ہوتا۔ اور دوسری حدیث کے عموم سے مقتدی کا "سمع الله لمن حمدہ" کہنا ثابت ہوتا ہے اگر اس حدیث کو یوں ہی سمجھا جائے تو اس کا مطلب ہوا کہ امام صرف "سمع الله لمن حمدہ" کہے "ربنا لك الحمد" نہ کہے حالانکہ بہت ساری صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام کو جیسے "سمع الله لمن حمدہ" کہنا چاہیے ربنا لک الحمد، بھی اسی طرح کہنا چاہیے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [فتح الباري: 180/2 - مختصر خلافيات: 1/ 391-393]
احناف کے ہاں امام محمد، قاضی ابو یوسف اور امام طحاوی کا یہ موقف ہے کہ امام تسمیع و تحمید دونوں کو جمع کرے۔ [عقود الجواهر المنيفة فى ادلة الامام ابي حنيفة، ص: 63]
جب ان کے ہاں امام تسمیع و تحمید دونوں کہے تو اس حدیث کی مخالفت نہیں تو مقتدی بھی تسمیع و تحمید دونوں کو جمع کرے تو حدیث کے بالکل مطابق اور صحیح ہے، لہذا مقتدی کو بھی "سمع الله لمن حمدہ" کہنا چاہیے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام اور مقتدیوں کو بہرحال دونوں دعائیں پڑھنی چاہیں۔

جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے، تو تم سبھی بیٹھ کر نماز پڑھو:
"صحیحین" میں اس حدیث کا سبب بیان کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: رسول الله صلى الله عليه وسلم نے (بیمار ہونے کے سبب) ایک روز اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور کچھ لوگ حالتِ قیام میں آپ صلى الله عليه وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ تم بھی بیٹھ جاؤ۔ جب نماز سے فارغ ہو گئے، تو ان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: امام ہوتا ہی اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ الی آخرہ [صحيح بخاري: 169/1، كتاب الأذان، باب انما جعل الإمام ليؤتم به - صحيح مسلم: 309/1، كتاب الصلوٰة، باب ائتمام الماموم بالامام.]
جو لوگ امام کے بیٹھ کر نماز پڑھانے کے قائل ہیں، وہ اسی مذکورہ حدیث سے تمسک پکڑتے ہیں۔
اس مسئلہ کی منسوخیت کے متعلق امام بخاری رحمة الله علیه نے اپنے شیخ علامہ حمیدی رحمة الله علیه سے نقل کیا ہے: یہ طریقۂ نماز اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھائے، تو مقتدی بھی اس کی اقتداء بیٹھ کر کریں گے، منسوخ ہے۔ کیونکہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کا فرمان مبارک «إِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا اَجْمَعِيْنَ .» یہ بیماری کے زمانہ اور وہ بھی ابتداء میں تھا، جب کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے مرض الموت کے زمانہ میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ لیکن انہوں نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور اس پر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے انہیں بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے متعلق کسی قسم کا کوئی حکم نہیں فرمایا۔
ایسی صورت میں مقتدیوں کو کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا ہوگی۔ اور جہاں تک سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کا تعلق ہے، تو وہ منسوخ ہے، جیسا مذکورہ حمیدی رحمة الله علیه کا قول گزر چکا ہے۔ دیکھئے! [شرح السنة: 422/3]
سیدہ عائشہ رضی الله عنہا سے مروی حدیث ہے:
«وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يَقْتَدُونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ"» ([شرح السنة: 464/3 - صحيح مسلم، كتاب الصلوٰة، باب استخلاف الامام، رقم: 418/90]
معلوم ہوا کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور یہ حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ والی روایت کے آخری حصہ کی ناسخ بھی ہے۔ جو اصحاب علم اس حدیث کے آخری حصہ کو منسوخ قرار نہیں دیتے، وہ کہتے ہیں: سیدہ عائشہ والی روایت میں الفاظ کا تعارض ہے، وہ اس طرح کہ جس حدیث کو اسود رضی الله عنہ نے ان سے روایت کیا ہے، اس کے الفاظ ہیں: "اِنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیه وسلم کَانَ اِمَامًا" اور جس حدیث کو مسروق رضی الله عنہ نے ان سے روایت کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
«صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ قَاعِدًا» (دیکھئے! [سنن الترمذي، ابواب الصلوٰة، رقم: 362]
اسی طرح 'سنن الترمذی' میں ایک روایت سیدنا انس رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے، جس میں سیدنا ابوبکر رضی الله عنہ کے پیچھے رسول الله صلى الله عليه وسلم کی اقتداء کا تذکرہ ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔
«صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ قَاعِدًا فِي ثَوْبٍ مُتَوَشِّحًا بِهِ» [سنن ترمذي، رقم: 363، وقال: هذا حديث حسن صحيح.]
کبھی رسول الله صلى الله عليه وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، کبھی صدیق اکبر رضی الله عنہ کی اقتداء میں پڑھی، اور کبھی رسول الله صلى الله عليه وسلم بیٹھ کر امامت کر رہے ہیں اور صدیق اکبر رضی الله عنہ کھڑے ہوکر رسول الله صلى الله عليه وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے لوگوں کو نماز پڑھا رہے ہیں۔ اسی لیے تو امام بخاری رحمة الله علیه اس حدیث کو ناسخ کہتے ہوئے فرماتے ہیں: «وَلَهُ يَدٌ طُوْلٰي.»
بعض اہل علم نے ان دو مذکورہ حدیثوں کے مابین تطبیق کی راہ اپنائی ہے، ان میں سے کسی صاحب نے کہا کہ جب امام کسی مرض کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی اس کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز ادا کریں۔ جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ والی روایت سے واضح ہے۔ اور اگر امام ابتداءً نماز میں کھڑا ہو اور بعد میں بیٹھ جائے تو اس صورت میں مقتدیوں کو اپنی ابتدائی حالت پر قائم رہنا چاہیے، نہ کہ بیٹھ جائیں۔
بعض اہل علم نے کہا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ والی روایت سے مقتدیوں کے ليے بیٹھنے کا یہ وجوب ثابت ہوتا ہے۔ اور سیدہ عائشہ رضی الله عنہا والی روایت نے مقتدیوں کے لیے بیٹھنے کے وجوب کو منسوخ کر دیا ہے۔ معلوم ہوا مقتدیوں کے لیے بیٹھنا مستحب ہے نہ واجب۔ اس مسئلہ میں قابل اعتناء رائے یہی ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ والی روایت کا آخری حصہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کے مرض موت والے عمل سے منسوخ ہے۔ [فتح الباري: 2/ 176، 177]
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 44   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.