478- وبه: عن ام سلمة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إنما انا بشر وإنكم تختصمون إلى ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض فاقضي له على نحو ما اسمع منه فمن قضيت له بشيء من حق اخيه فلا ياخذ منه شيئا فإنما اقطع له قطعة من النار.478- وبه: عن أم سلمة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلى ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قضيت له بشيء من حق أخيه فلا يأخذ منه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار.
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تو ایک بشر ہوں اور تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے کہ بعض آدمی دوسرے کی بہ نسبت اچھے طریقے سے اپنی دلیل بیان کرنے والے ہوں تو میں جیسے سنوں اس کے مطابق ان کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ پس (ایسی صورت میں اگر) میں نے جس شخص کے بارے میں اس کے بھائی کے حق میں سے فیصلہ کر دیا تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے کیونکہ میں اس کے حوالے آگ کا ایک ٹکڑا کر رہا ہوں۔“
हज़रत उम्म सलमह रज़ि अल्लाहु अन्हा से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “मैं तो एक बशर हूँ और तुम मेरे पास झगड़े ले कर आते हो, हो सकता है कि कुछ लोग दूसरे की तुलना में अच्छे तरीक़े से अपनी दलील रखने वाले हों तो मैं जैसे सुनूँगा उस के अनुसार उन के हक़ में फ़ैसला कर दूँगा। बस (अगर ऐसा हो) मैं ने जिस व्यक्ति के बारे में उस के भाई के हक़ में से फ़ैसला कर दिया तो वह उस में से कुछ भी न ले क्यूंकि मैं उस के हवाले आग का एक टुकड़ा कर रहा हूँ।”
تخریج الحدیث: «478- الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 719/2 ح 1460، ك 36 ب 1 ح 1) التمهيد 215/22، الاستذكار: 1384، و أخرجه البخاري (2680) من حديث مالك، ومسلم (1713/4) من حديث هشام بن عروة به.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 627 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 627
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2680، من حديث مالك، ومسلم 4 / 1713، من حديث هشام بن عروة به]
تفقه: ➊ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر بلکہ خیر البشر ہونے کے ساتھ نورِ ہدایت اور سید وُلدِ آدم بنا کر بھیجا۔ ➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے۔ ➌ تمام جھگڑوں کا فیصلہ کتاب وسنت اور اجماع کی روشنی میں کرنا چاہئے۔ ➍ قاضی کے فیصلے کا دار ومدار گواہوں کی گواہیوں پر ہوتا ہے، اسی لئے جھوٹی گواہی کے بارے میں شدید وعید وارد ہوئی ہے۔ ➎ مسلمان بھائی کی حق تلفی کرنا کبیرہ گناہ ہے بلکہ کافروں کی حق تلفی کرنا بھی جائز نہیں ہے جیسا کہ دوسرے عمومی دلائل سے ثابت ہے۔ ➏ حافظ ابن عبدالبر نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ انسان غیب نہیں جانتے۔۔۔ اور انبیاء صرف اسی غیب میں سے جانتے تھے جو انھیں بذریعہ وحی سکھایا جاتا تھا۔ دیکھئے: [التمهيد 22 / 216] ➐ شرعی احکام ظواہر پر جاری ہوتے ہیں اِلا یہ کہ تخصیص کی کوئی صریح دلیل آجائے۔ ➑ بعض لوگ چرب زبانی کی وجہ سے بعض اوقات باطل بات بھی منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اس عارضی کامیابی کے باوجود عند اللہ مجرم ہی رہتے ہیں۔ ➒ قاضی کا فیصلہ ظاہراً نافذ ہو گا تاہم اس کے فیصلے سے چیز کی حقیقت نہیں بدلتی اور غاصب مالک نہیں بن جاتا۔ ➓ اجتہاد کرنا جائز ہے۔ مزید تفقہ اور فوائد کے لئے دیکھئے: [التمهيد 22 / 222] تنبیہ: اس حدیث سے اور بھی بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں مثلاً مشکوک اور حرام کاموں سے بچنا چاہئے۔ حرام اور مشکوک مال کو استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ صرف رزقِ حلال کھانا چاہئے۔ قاضی کے فیصلے سے حقیقت نہیں بدلتی، اس سے ناجائز جائز نہیں بن جاتا۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 478