347- وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، لوددت اني اقاتل فى سبيل الله فاقتل، ثم احيا فاقتل، ثم احيا فاقتل، فكان ابو هريرة يقول ثلاثا: اشهد بالله.347- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، لوددت أني أقاتل فى سبيل الله فأقتل، ثم أحيا فأقتل، ثم أحيا فأقتل، فكان أبو هريرة يقول ثلاثا: أشهد بالله.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں قتال کروں پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں (تو قتال کروں) پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تین دفعہ فرماتے: میں اللہ (کی قسم) کے ساتھ گواہی دیتا ہوں۔“
इसी सनद के साथ (हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह से) रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “उस ज़ात की क़सम जिस के हाथ में मेरी जान है ! मैं चाहता हूँ कि अल्लाह के रास्ते में जंग करूँ फिर मारा जाऊँ, फिर ज़िंदा किया जाऊँ (तो जंग करूँ) फिर क़त्ल किया जाऊँ फिर ज़िंदा किया जाऊँ फिर क़त्ल किया जाऊँ फिर हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह तीन दफ़ा कहते ! मैं अल्लाह (की क़सम) के साथ गवाही देता हूँ।”
تخریج الحدیث: «347- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 460/2 ح 1014، ك 21 ب 14 ح 27) التمهيد 340/18، الاستذكار: 951، وأخرجه البخاري (7227) من حديث مالك به، ومسلم (1867/106) من حديث ابي الزناد به.»
لولا أن أشق على أمتي ما تخلفت عن سرية ولكن لا أجد حمولة ولا أجد ما أحملهم عليه ويشق علي أن يتخلفوا عني ولوددت أني قاتلت في سبيل الله فقتلت ثم أحييت ثم قتلت ثم أحييت
لولا أن رجالا من المؤمنين لا تطيب أنفسهم أن يتخلفوا عني ولا أجد ما أحملهم عليه ما تخلفت عن سرية تغزو في سبيل الله والذي نفسي بيده لوددت أني أقتل في سبيل الله ثم أحيا ثم أقتل ثم أحيا ثم أقتل ثم أحيا ثم أقتل
لولا أن رجالا من المؤمنين لا تطيب أنفسهم بأن يتخلفوا عني ولا أجد ما أحملهم عليه ما تخلفت عن سرية تغزو في سبيل الله والذي نفسي بيده لوددت أني أقتل في سبيل الله ثم أحيا ثم أقتل ثم أحيا ثم أقتل
لولا أن رجالا من المؤمنين لا تطيب أنفسهم أن يتخلفوا عني ولا أجد ما أحملهم عليه ما تخلفت عن سرية تغزو في سبيل الله والذي نفسي بيده لوددت أفني أقتل في سبيل الله ثم أحيا ثم أقتل ثم أحيا ثم أقتل ثم أحيا ثم أقتل
لولا أن أشق على أمتي لم أتخلف عن سرية ولكن لا يجدون حمولة ولا أجد ما أحملهم عليه ويشق عليهم أن يتخلفوا عني ولوددت أني قتلت في سبيل الله ثم أحييت ثم قتلت ثم أحييت ثم قتلت ثلاثا
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 556
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 7227، من حديث مالك، ومسلم 106/1876، من حديث ابي الزناد به] تفقه: ➊ جہاد اس قدر افضل اور عظیم الشان رکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حتی الوسع ہر جہاد میں بذاتِ خود شامل ہوتے تھے۔ ➋ میدانِ جنگ وغیرہ میں نبی اور رسول قتل یعنی شہید ہوسکتا ہے۔ ➌ سچی قسم کھانا ہر وقت جائز ہے۔ ➍ ہر وقت دل میں شہادت کی تمنا سجائے رکھنا اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔ نیز دیکھئے [الموطأ حديث: 346]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 347
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 557
´شہادت کی آرزو سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے` «. . . 506- مالك عن يحيى بن سعيد عن أبى صالح السمان عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لولا أن أشق على أمتي، لأحببت أن لا أتخلف عن سرية تخرج فى سبيل الله، ولكن لا أجد ما أحملهم عليه، ولا يجدون ما يتحملون عليه فيخرجون، ويشق عليهم أن يتخلفوا بعدي، فوددت أني أقاتل فى سبيل الله فأقتل، ثم أحيا فأقتل، ثم أحيا فأقتل. . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو مجھے یہ پسند تھا کہ میں کسی جہادی دستے سے پیچھے نہ رہوں جو اللہ کے راستے میں نکلتا ہے لیکن میرے پاس تمہاری سواری کے لئے کوئی چیز نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس سواریاں ہیں تاکہ وہ (اللہ کے راستے میں) نکلیں اور لوگوں کو اس میں تکلیف ہو گی کہ وہ مجھ سے پیچھے رہ جائیں۔ پس میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں قتال کروں تو قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں تو قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں تو قتل کیا جاؤں۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 557]
تخریج الحدیث: [وأخرجه النسائي فى الكبريٰ 5/ 259 ح8835، من حديث مالك به ورواه البخاري 2972، ومسلم 6/ 2876، من حديث يحييٰ بن سعيد الانصاري به وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: ”وَلٰكِنِّيْ“]
تفقه: ➊ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بہت افضل عمل ہے۔ ➋ شرعی عذر کے بغیر کمانڈر کو خود میدانِ جنگ سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔ ➌ یہ ممکن ہے کہ اللہ کا رسول اور نبی میدانِ جنگ وغیرہ میں شہید ہوجائے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أشد الناس عذابًا یوم القیامة رجل قتله نبي أو قتل نبیًا وإمام ضلالة وممثل من الممثلین۔» قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس کو ہوگا: جسے کسی نبی نے قتل کیا یا جس نے کسی نبی کو قتل کیا اور گمراہی کا امام اور مجسمہ یا تصویر بنانے والا۔ [مسند أحمد 1 / 407 ح3868 وسنده حسن] ➍ یہ کہنا بلا دلیل اور قرآن وحدیث کے خلاف ہے کہ نبی اور رسول قتل نہیں ہوسکتے۔ ➎ جہاد کے لئے اپنا مال خرچ کرنا چاہئے تاکہ صحیح العقیدہ مجاہدین اس سے سواریاں اور سامانِ جہاد خرید سکیں۔ ➎ جہاد قیامت تک حتی الوسع جاری رہے گا۔ ➐ اس حدیث میں شہادت فی سبیل اللہ کی فضیلت اور اس کی تمنا کی ترغیب ہے۔ نیز دیکھئے: [حديث:الموطأ 215، البخاري 2849، ومسلم 96/1871]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 506
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 19
´رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق جہاد فی سبیل اللہ` اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے مومنوں پر دشواری کا احتمال نہ ہوتا تو میں اللہ کی راہ میں لڑنے والی کسی جماعت سے پیچھے نہ بیٹھتا۔ لیکن خود میرے پاس اتنی وسعت نہیں کہ میں ان سب کو سوار کر کے اپنے ساتھ لے چلوں، اور انہیں بھی اتنی سواریاں میسر نہیں کہ وہ ان پر سوار ہو کر میرے ساتھ چلیں، اور نہ وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ میرے (جانے کے بعد) وہ پیچھے بیٹھے رہیں۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 19]
شرح الحديث: اس حدیث میں جہاد کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا اپنی امت کے لبے مشفق ہونا بھی واضح ہے، کیونکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مسلمانوں کے دلوں میں اس سے رنج نہ ہوتا کہ میں ان کو چھوڑ کر جہاد کے لیے نکل جاؤں، اور مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کرکے اپنے ساتھ لے چلوں، تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے ایسے لشکر کے ساتھ جانے سے بھی نہ رکتا جو الله کے راستے میں غزوہ کے لیے جا رہا ہوتا۔ اس حدیث کی بعض روایات میں کچھ الفاظ زیادہ آئے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «وَلَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ .»[صحيح بخاري، كتاب الايمان، رقم: 36] "اور اگر میں اپنی امت پر (اس کام کو) دشوار نہ سمجھتا تو لشکر کا ساتھ نہ چھوڑتا اور میری خواہش ہے کہ الله کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں." اس حدیث پر امام بخاری رحمة الله علیه نے "کتاب الایمان" میں ایمان کی نشانیاں ذکر کرتے ہوئے باب قائم کیا ہے «بَابُ الْجِهَادِ مِنَ الْاِيْمَان» "باب جہاد بھی ایمان کا جزو ہے۔ " اور اس کے تحت یہ حدیث لائے ہیں جس کا مطلب ہے کہ جہاد ایمان میں داخل ہے، چاہے جہاد مع النفس ہو یا جہاد بالکفار۔ نیز اس باب سے پہلے «بَابُ قِيَام لَيْلَةِ الْقَدْرِ مِنَ الْاِيْمَانِ» "باب شب قدر کی بیداری بھی ایمان سے ہے۔ " ذکر کیا ہے، اور اس کے بعد «بَاب تَطُوْع قِيام رمضان من الإيمان» لائے ہیں۔ امام بخاری رحمة الله علیه کے اس فعل سے اس طرف اشارہ ہے کہ اگر جہاد رمضان المبارک میں واقع ہو تو اور زیادہ ثواب ہے۔ پھر اگر شہادت فی سبیل الله بھی نصیب ہو جائے تو نُوْرٌ عَلَی نُوْرٍ ہے۔ مجاہد فی سبیل الله صرف وہی ہے جس کا خروج خالص الله کی رضا کے لیے ہو، اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ایمان ہو، ایسے مجاہد کو اگر شہادت کا درجہ مل گیا تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوا، حوروں کی گود میں پہنچا اور حساب و کتاب سے مستثنیٰ ہوگیا، وہ جنت کے پھل کھائے گا اور معلق قندیلوں میں بسیرا کرے گا، اور اگر وہ سلامتی کے ساتھ گھر واپس آگیا تو وہ پورے پورے ثواب کے ساتھ اور ممکن ہے کہ مال غنیمت کے ساتھ بھی واپس ہوا ہو۔ شرح میں مذکورہ حدیث پاک میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے خود بھی شہادت کی تمنا فرمائی۔ جس سے آپ نے امت کو مرتبہ شہادت بتلانا چاہا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ شہادت کی آرزو کرنا اس نیت سے کہ اس سے شجرِ اسلام کی آبیاری ہوگی اور آخرت میں بلند درجات حاصل ہوں گے، یہ جائز بلکہ سنت ہے، اور ضروری ہے۔ مذکورہ حدیث مبارکہ میں جہاد کو قیامت تک جاری رہنے کی خبر دی گئی ہے۔ ہاں! طریقہ کار حالات کے تحت بدلتا رہے گا۔ مسلمانوں نے جب سے جہاد و قتال کا رستہ چھوڑا ہے اسی وقت سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہو گئے ہیں، آج امت مسلمہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں، شیطانی طاقتیں اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں، طاغوتی قوتیں ہر طرف سے مسلمانوں کا گھیرا تنگ کر رہی ہیں، شعائر اسلام کی اس قدر توہین کی جا رہی ہے کہ الله کی پناہ، اسلامی اقدار کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، غرض ہر طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو دبایا اور پسپا کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں امت مسلمہ کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے جہاد و قتال کی راہ اپنانی ہوگی، لیکن طریقہ نبوی صلی الله علیہ وسلم اور منہج سلف صالحین کے عین مطابق ہو۔
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 19
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3100
´(غازی کا) سریہ (فوجی دستہ) سے پیچھے رہ جانے کی رخصت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر بہت سے مسلمانوں کو مجھ سے پیچھے رہنا ناگوار نہ ہوتا اور میں ایسی چیز نہ پاتا جس پر انہیں سوار کر کے لے جاتا تو کسی ایسے فوجی دستے سے جو اللہ عزوجل کے راستے میں جہاد کے لیے نکلا ہو پیچھے نہ رہتا، (لیکن چونکہ مجبوری ہے اس لیے ایسے مجبور کے لیے فوجی دستے کے ساتھ نہ جانے کی رخصت ہے) اور ق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3100]
اردو حاشہ: (1) یہ صرف خواہش ہے، مقصد شہادت کی فضیلت بیان کرنا ہے ورنہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ کبھی کوئی شہید زندہ نہیں ہوا۔ شہدائے احد نے اللہ تعالیٰ سے زندگی کی درخواست کی تھی مگر منظور نہ ہوئی۔ (صحیح مسلم، الأمارة، حدیث: 1887) (2) شہادت کی خواہش کا فائدہ یہ ہے کہ اسے ثواب مل جائے گا، خواہ وہ بستر ہی پر فوت ہو‘ نیز اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا مرتبہ عطا فرما دے گا۔ (3) معلوم ہوا کہ ہر شخص کا میدان جنگ میں جانا ضروری نہیں بلکہ حالات، وسائل اور ضروریات کا لحاظ ضروری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3100
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3153
´اللہ کے راستے (جہاد) میں مارے جانے کی تمنا کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میری امت کے لیے یہ بات باعث تکلیف و مشقت نہ ہوتی تو میں کسی بھی فوجی ٹولی و جماعت کے ساتھ نکلنے میں پیچھے نہ رہتا، لیکن لوگوں کے پاس سواریوں کا انتظام نہیں، اور نہ ہی ہمارے پاس وافر سواریاں ہیں کہ میں انہیں ان پر بٹھا کر لے جا سکوں؟ اور وہ لوگ میرا ساتھ چھوڑ کر رہنا نہیں چاہتے۔ (اس لیے میں ہر سریہ (فوجی دستہ) کے ساتھ نہیں جاتا) مجھے تو پسند ہے کہ م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3153]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے دیکھیے ح 3100۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3153
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2797
2797. حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ اہل ایمان کے دل اس سے خوش نہ ہوں گے کہ وہ جنگ میں میرے پیچھے رہ جائیں اور مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کرکے اپنے ہمراہ لے چلوں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے لشکر سے بھی پیچھے نہ رہتا جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلا ہو۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میری تو خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کردیاجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں۔ پھر قتل (شہید) کیاجاؤں پھر زندہ کیاجاؤں۔ پھر قتل کردیا جاؤں، پھر زندہ کیاجاؤں، پھر شہید کر دیاجاؤں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2797]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ شہادت کی آرزو کرنا اس نیت سے کہ اس سے شجر اسلام کی آبیاری ہوگی اور آخرت میں بلند درجات حاصل ہوں گے۔ یہ جائز بلکہ سنت ہے اور ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2797
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7226
7226. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر یہ نہ ہوتا کہ لوگ میرے بعد مجھ سے پیچھے رہنا ناپسند کریں گے جبکہ میرے پاس انھیں مہیا کرنے کے لیے سواریاں نہیں ہیں تو میں کسی لشکر سے پیچھے نہ رہتا۔ میری تو خواہش ہے کہ اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7226]
حدیث حاشیہ: ایسی پاکیزہ تمنائیں کرنا بلا شبہ جائز ہے۔ جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7226
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7227
7227. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔“(راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7227]
حدیث حاشیہ: کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا۔ آخر میں ختم شہادت پر کیا کیونکہ مقصود ہی تھی جو آپ کو بتلا دیا گیا تھا کہ اللہ آپ کی جان حفاظت کرے گا جیسا کہ فرمایا‘ (وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ) لیکن یہ آرزو محض فضیلت جہاد کے ظاہر کرنے کے لیے آپ نے فرمائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7227
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2797
2797. حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ اہل ایمان کے دل اس سے خوش نہ ہوں گے کہ وہ جنگ میں میرے پیچھے رہ جائیں اور مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کرکے اپنے ہمراہ لے چلوں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے لشکر سے بھی پیچھے نہ رہتا جو اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلا ہو۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میری تو خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کردیاجاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں۔ پھر قتل (شہید) کیاجاؤں پھر زندہ کیاجاؤں۔ پھر قتل کردیا جاؤں، پھر زندہ کیاجاؤں، پھر شہید کر دیاجاؤں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2797]
حدیث حاشیہ: 1۔ موت کی تمنا کرنامنع ہے،البتہ شہادت کی آرزو رکھنا اس نیت کے ساتھ کہ اس سے شجر اسلام کی آبیاری ہوگی اور اورآخرت میں بلند درجات حاصل ہوں گے۔ یہ جائز ہی نہیں بلکہ سنت نبوی ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ جہاد ہر مسلمان پر فرض نہیں بصورت دیگر رسول اللہ ﷺ اس میں پیچھے نہ رہتے اور نہ دوسروں کے پیچھے رہنے ہی کو جائز قراردیتے،البتہ اگردشمن حملہ کردے تو ہرمسلمان پر جہاد فرض ہوجاتا ہے جبکہ وہ جہاد کی طاقت رکھتا ہو۔ 3۔ قبل ازیں عنوان کی غرض جہاد اور شہادت کی دعاکرناہے جبکہ اس عنوان سے مقصود شہادت کی تمنا کرناہے جو موت کی آرزو نہیں بلکہ شہادت پر درجات کے حصول کی خواہش ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2797
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2972
2972. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت پر مشکل اور دشوار نہ سمجھتا تو میں کسی بھی چھوٹے سے چھوٹےلشکر سے پیچھے نہ رہتا لیکن میرے پاس اتنی سواریاں نہیں ہیں کہ میں ان کو دے سکوں اور نہ میرے پاس اتنے وسائل ہی ہیں کہ میں انھیں عاریتاً سواریاں مہیا کر سکوں۔ اس کے باوجود ان کا جہاد سے پیچھے رہ جانا بھی مجھ پر بہت گراں ہے۔ میں تو یہ پسند کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کروں اور قتل ہو جاؤں، پھر زندہ کردیا جاؤں، پھر قتل ہو جاؤں، پھر زندہ کر دیا جاؤں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2972]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے مقصود "حملان في سبیل اللہ" کا ثبوت مہیا کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مجاہد کو بطورتعاون کوئی سواری مہیا کردی جائے یا اسے ادھار دے دی جائے۔ ایساکرنا جائزہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے متعلق اپنے ارادے کا اظہار کیاتھا۔ 2۔ جہاد کا حکم تو سب کے لیے برابر ہے،کسی معقول عذر کے بغیر اس سے علیحدگی اختیار کرنا جائز نہیں، البتہ یہ صورت اس سے الگ ہے کہ کسی پر جہادفرض نہ ہو اوروہ جہاد میں جانے والے کی مدد کرے ثواب میں شریک ہوجائے، ہاں جہاد میں شرکت سے بچنے کے لیے اگرایسا کرتا ہے تو جائز نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2972
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7227
7227. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔“(راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7227]
حدیث حاشیہ: 1۔ وُدّ کے معنی ہیں: کسی چیز سے محبت کرنا اور اس کے وقوع کی خواہش کرنا۔ اگرچہ یہاں تمنا کے لیے عربی زبان کا مخصوص لفظ: لَيْتَ استعمال نہیں ہوا، تاہم اس مقام پر ایک پاکیزہ آرزو کا اظہار کیا گیا ہے، اور ایسی شہادتیں جائز اور مباح بلکہ مستحب ہیں جیسا کہ ان احادیث میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی بار بار تمنا کی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حفاظت کی ضمانت دی تھی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اللہ تعالیٰ آ پ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔ “(المآئدة: 67) 2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آرزو کو شہادت پر ختم کیا، حالانکہ قرار تو حیات پر ہوتا ہے، اس انداز سے شہادت کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7227