466- وبه: انها قالت: كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش فى الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه فى الجاهلية، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة صامه وامر بصيامه، فلما فرض رمضان كان هو الفريضة وترك يوم عاشوراء، فمن شاء صامه ومن شاء تركه.466- وبه: أنها قالت: كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش فى الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه فى الجاهلية، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة صامه وأمر بصيامه، فلما فرض رمضان كان هو الفريضة وترك يوم عاشوراء، فمن شاء صامه ومن شاء تركه.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ جاہلیت میں قریش عاشوراءکے ایک دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعثت سے پہلے اسے رکھا کرتے تھے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہ روزہ خود بھی رکھا اور اسے رکھنے کا حکم بھی دیا۔ پھر جب رمضان فرض ہوا تو اسی کے روزے فرض قرار پائے اور عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا گیا، پس جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے اسے ترک کر دے یعنی نہ رکھے۔
इसी सनद के साथ (हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा से) रिवायत है कि जाहिलियत में क़ुरैश आशूराअ (दस मुहर्रम) के एक दिन का रोज़ा रखा करते थे और रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम भी नबवत से पहले इसे रखा करते थे, फिर जब रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम मदीना आए तो ये रोज़ा ख़ुद भी रखा और इसे रखने का हुक्म भी दिया। फिर जब रमज़ान फ़र्ज़ हुआ तो इसी के रोज़े फ़र्ज़ किये गए और आशूराअ का रोज़ा छोड़ दिया गया, बस जो चाहे ये रोज़ा रखे और जो न चाहे वह न रखे।
تخریج الحدیث: «466- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 299/1 ح 671، ك 18 ب 11 ح 33) التمهيد 148/22، الاستذكار: 621، و أخرجه البخاري (2002) من حديث مالك به.»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 266 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 266
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2002، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ عاشوراء کا روزہ فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔ اس روزے سے گزشتہ سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 1162، ترقيم دارالسلام: 2747] ➋ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اگلے سال زندہ رہا تو نو(9) محرم کا روزہ رکھوں گا۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 1134، دارالسلام: 2666] ◄ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو فرمایا: جب تم محرم کا چاند دیکھو تو گنتی شروع کر دو اور نو (9) محرم کو روزہ رکھو۔ [صحيح مسلم: 1133، دارالسلام: 2664] ◄ اگر کوئی کہے: کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ دس محرم کو روزہ نہیں ہو گا؟ تو عرض ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «صوموا التاسع والعاشر وخلفوا اليهود» نو اور دس (محرم) کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 4/287 وسنده صحيح، مصنف عبدالرزاق 7839، السنن المأثوره للشافعي رواية الطحاوي ص317 ح337] اور یہ ظاہر ہے کہ راوی اپنی روایت کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ ◄ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے بعض لوگوں کے قاعدے کے طور پر بطورِ الزام ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 4/230 ح2111] ➌ قاسم بن محمد بن ابی بکر عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه تقديم الشيخ سعد بن عبدالله آل حميد ج4 ص90 ح9450 وسنده صحيح، وسقط القاسم من النسخة الأخريٰ!]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 466