273- مالك عن صالح بن كيسان عن عروة بن الزبير عن عائشة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم انها قالت: فرضت الصلاة ركعتين ركعتين فى السفر والحضر، فاقرت صلاة السفر، وزيد فى صلاة الحضر.273- مالك عن صالح بن كيسان عن عروة بن الزبير عن عائشة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم أنها قالت: فرضت الصلاة ركعتين ركعتين فى السفر والحضر، فأقرت صلاة السفر، وزيد فى صلاة الحضر.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نماز (پہلے سفر اور حضر میں دو دو رکعتیں فرض ہوئی تھی پھر سفر والی نماز تو اپنے حال پر) باقی رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا۔
नबी सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की पत्नी हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा से रिवायत है कि नमाज़ पहले सफ़र में और रहने वालों पर दो दो रकअतें ही फ़र्ज़ हुई थी फिर सफ़र वाली नमाज़ छोड़ कर रहने वालों की नमाज़ बढ़ा दी गई।
تخریج الحدیث: «273- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 146/1 ح 333، ك 9 ب 2 ح 8 وقال: هذا حديث صحيح الإسناد عند جماعة أهل النقل) التمهيد 293/16، الاستذكار: 304، و أخرجه البخاري (350) مسلم (685) من حديث مالك به.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 174
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 350، ومسلم 685، من حديث مالك به] تفقه: ➊ مغرب کے علاوہ سفر میں ہر نماز دو دو رکعت فرض ہے۔ مغرب کی تین رکعتوں کے استثناء «إلا المغرب فإنها كانت ثلاثًا» کی روایت مسند أحمد [ج6 ص272 ح26338 وسنده حسن] میں موجود ہے۔ والحمدللہ ➋ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر «حَضَ» ر (گھر، گاؤں اور شہر) میں چار رکعتیں، سفر میں دو رکعتیں اور حالتِ خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ [صحيح مسلم: 1575] یعنی مقیم پر چار رکعتیں اور مسافر پر دو رکعتیں فرض ہیں سوائے نماز مغرب کے۔ ➌ سفر میں پوری نماز پڑھنا بھی ثابت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں قصر کرتے تھے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پوری پڑھتی تھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أحسنت یا عائشة!» اے عائشہ! تو نے اچھا کیا ہے۔ [سنن النسائي 3/121 ح1457، وسنده حسن وأخطأ من ضعفه] ◈ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں پوری نماز پڑھتی تھیں۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2/452 ح8189 وسنده صحيح] ◈ ابوقلابہ (تابعی) رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر تم سفر میں دو رکعتیں پڑھو تو سنت ہے اور اگر چار پڑھو تو (بھی) سنت ہے [ابن ابي شيبه ح8188 وسنده صحيح] ◈ سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر سفر میں مرضی ہو تو دو رکعتیں پڑھو اور اگر مرضی ہو تو چار پڑھو۔ [ابن ابي شيبه: 8192 وسنده صحيح] ◈ عطاء (بن ابی رباح) رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر قصر کرو تو رخصت ہے اور اگر پوری پڑھو تو تمھاری مرضی ہے۔ [ابن ابي شيبه: 1819وسنده صحيح]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 273
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 341
´مسافر اور مریض کی نماز کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابتداء میں دو رکعت فرض کی گئی تھیں (سفر و حضر میں جتنی نماز فرض کی گئی وہ دو رکعت تھی) پھر سفر کی نماز کو برقرار رکھا گیا (یعنی دو رکعات) اور حضر کی نماز کو پورا کر دیا گیا (یعنی چار رکعات)(بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو چار رکعت فرض کر دی گئیں اور سفر کی نماز پہلی حالت پر برقرار رکھی گئی۔ احمد نے اتنا اضافہ کیا ہے سوائے نماز مغرب کے کیونکہ وہ دن کے وتر ہیں اور بجز صبح کی نماز کیونکہ اس نماز میں قرآت لمبی کی جاتی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 341»
تخریج: «أخرجه البخاري، الصلاة، باب كيف فرضت الصلوات في الإسراء، حديث:350، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين وقصرها، حديث:685، وحديث ((ثم هاجر....)) أخرجه البخاري، حديث: 3935، وحديث ((إلا المغرب فإنها وترالنهار)) أخرجه أحمد:6 /241، 272 وهو حديث صحيح.»
تشریح: 1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدا میں حضر و سفر کی نماز دو دو رکعت فرض تھی‘ بعد میں سفر کی نماز کو اپنی حالت پر رکھا گیا‘ البتہ حضر کی نماز میں دو رکعتوں کا مزید اضافہ کر دیا گیا۔ 2. قرآن مجید میں نماز قصر کا جو بیان ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں قصر نماز پڑھنا جائز ہے‘ واجب نہیں۔ 3.امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے کہ سفر میں قصر واجب ہے جبکہ امام احمد اور امام شافعی; وغیرہ اسے سنت قرار دیتے ہیں اور اسے رخصت پر محمول کرتے ہیں اور یہی قول راجح ہے۔ 4. سنن دارقطنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ دوران سفر میں نے پوری نماز پڑھی۔ آپ کو جب اس کی خبر دی تو آپ نے میری تحسین کی۔ (سنن الدارقطني:۲ / ۱۸۸‘ وسنن الکبرٰی للبیھقي:۳ / ۱۴۲) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اتباع میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اور دیگر متاخرین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے جو کہ صحیح موقف ہے جبکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (زاد المعاد بتحقیق شعیب الأرنؤوط و عبدالقادر الأرنؤوط:۱ / ۴۴۷. ۴۵۵)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 341
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:350
350. حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب نماز فرض کی تو حضر و سفر میں (ہر نماز کی) دو دو رکعتیں فرض کی تھیں، پھر نماز سفر میں اپنی اصلی حالت میں قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں اضافہ کر دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:350]
حدیث حاشیہ: 1۔ کیفیت عددی کی دوقسمیں ہیں: ایک تونمازوں کی تعداد، دوسرے نماز میں رکعات کی تعداد۔ پہلی قسم کے متعلق وضاحت تو حدیث اسرا میں موجود ہے کہ پہلے پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں، پھر تخفیف کرتے کرتے پانچ نمازوں کو برقرار رکھا گیا۔ اس حدیث میں نماز کی فرضیت کے وقت تعداد رکعات کے متعلق بتایاگیا ہے کہ جب نماز فرض ہوئی تھی تو ہرنماز کی دو دورکعات تھیں، پھرحضر کی نماز میں دو، دورکعات کا اضافہ کردیاگیا۔ البتہ ابن اسحاق ؒ کی بیان کردہ روایت میں مغرب کی نماز کا استثنا ہے۔ گویا صلاۃ مغرب شروع ہی سے تین رکعاتھیں، اس کی دورکعات نہیں تھیں۔ (مسند احمد: 273/6) ایک روایت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ ابتداء ميں ہرنماز کی دو، دورکعات فرض ہوئی تھیں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کی تو چاررکعات فرض ہوگئیں اور سفر کی نماز پہلی حالت پر چھوڑدی گئی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3935) محدث ابن خزیمہ ؒ نے حضرت عائشہ ؓ کی تفصیلی روایت بایں الفاظ نقل کی ہے: ابتداء سفروحضر میں ہرنماز کی دو، دورکعات فرض ہوئی تھیں، پھر رسول اللہ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اور آپ کو سکون واطمینان نصیب ہواتو صلاۃ حضرمیں دو، دورکعت کا اضافہ کردیاگیا اور صلاۃ فجر کو طول قراءت کی وجہ سے یونہی رہنے دیا گیا، اسی طرح مغرب چونکہ وترالنہار ہے۔ اس لیے اس میں بھی اضافہ نہیں کیاگیا۔ (صحیح ابن خذیمة: 157/1، حدیث: 305) ایک روایت میں ہے کہ نماز اولاً تو دو، دورکعت ہی فرض ہوئی تھی، پھر سفر کے لیے تو باقی اسی طرح رہی، البتہ حضر کی نماز کو پورا کردیا گیا۔ راوی حدیث امام زہری ؒ نے اپنے شیخ حضرت عروہ بن زبیر سے سوال کیا کہ پھر حضرت عائشہ ؓ دوران سفر میں نماز پوری کیوں پڑھتی تھیں؟انھوں نے جواب دیا کہ وہ بھی حضرت عثمان ؓ کی طرح تاویل کرتی تھیں۔ (صحیح البخاري، تقصیر الصلاة، حدیث: 1090) حضرت عروہ ؒ کے جواب سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے تاویلاً مقیم بن کر اتمام فرمایا، نہ کہ مسافر رہتے ہوئے اتمام کا عمل فرمایا، لہذا ان کے عمل اورروایت میں کوئی تضاد نہیں۔ دوران سفر میں قصر واجب ہے یا عزیمت یا رخصت؟ اس کے متعلق کتاب التقصیر الصلاة میں بحث ہوگی۔ امام بخاری ؒ کا اس مقام پر حدیث عائشہ ؓ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ نماز کی ابتدائی فرضیت کی نوعیت مقدار رکعات کے لحاظ سے سفروحضر دونوں حالتوں میں دو، دورکعات ہی تھی، اس کے بعد حضر کی نماز میں اضافہ کردیا گیا اورسفر کی نماز دو، دورکعات ہی باقی رہی۔ اس حدیث سے متعلقہ دیگرمباحث امام بخاری ؒ نے آئندہ بیان کیے ہیں، لہذا ہم بھی وہاں اپنی گزارشات پیش کریں گے۔ واضح رہے کہ تعداد رکعات کے متعلق حضرت عائشہؓ نے اجتہاد سے کام نہیں لیا، کیونکہ اس میں قیاس کا کوئی دخل نہیں، بلکہ یہ بات یاتو انھیں رسول اللہ ﷺ سے معلوم ہوئی یا کسی اور صحابی سے، اس لیے حافظ ابن حجر ؒ نے وضاحت فرمادی کہ یہ روایت معناً مرفوع ہے۔ (فتح الباري: 602/1) 2۔ حضرت عائشہ ؓ حضرت ابن عباس ؓ کی بیان کردہ ایک روایت کےخلاف ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ﷺ کی زبان حق ترجمان سے حضر میں نماز کی چار، چار رکعات سفر میں دو، دورکعات اورخوف میں ایک رکعت فرض کی گئی تھی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے یہ تعارض اس طرح ر فع کیا کہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں نمازوں کو پوراکردیا گیا، اس کے بعد جب سفر کی مشکلات درپیش ہوئیں تو مسافر کے لیے دیگرمراعات کے ساتھ ایک رعایت نماز کے متعلق بھی دے دی گئی کہ اسے قصر سے پڑھا جاسکتا ہے، کیونکہ ہجرت کے چوتھے سال آیت قصر نازل ہوئی ہے۔ اس توجیہ کے پیش نظر حدیث عائشہ ﷺ کا یہ مطلب ہے کہ انجام اور نتیجے کے اعتبار سے تخفیف کے بعد سفر کی نماز چاررکعت کے بجائے دورکعت ہوگئی۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ فرضیت کے وقت ہی سے اس کی دورکعات تھیں جنھیں برقرار رکھا گیا۔ (فتح الباري: 602/1) لیکن اس توجیہ پر دل مطمئن نہیں، کیونکہ یہ تاویل حضرت عائشہ ؓ کے صریح الفاظ کے خلاف ہے۔ پھر اس توجیہ میں ایک ایسا قیاس کیا گیا ہے جس کی کوئی معقول وجہ نہیں، وہ یہ کہ آیت قصہ ہجرت کے چوتھے سال نازل ہوئی، لہذا ان چار سال کی مدت میں نماز سفر بھی چاررکعات ہی ہوں گی۔ اس قیاس پر کوئی ثبوت نہیں پیش کیا گیا، بلکہ حضرت عائشہ ؓ کی روایت واضح ہے کہ اضافہ حضر کی نماز میں ہوا، سفر کی نماز میں اضافہ نہیں ہوا، بلکہ اسے جوں کا توں برقراررکھا گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہجرت کے بعد حضر کی نمازیں چار چار رکعات مقرر کردی گئیں اورسفر میں دو رکعت ہی رہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 350