● صحيح البخاري | 729 | عائشة بنت عبد الله | خشيت أن تكتب عليكم صلاة الليل |
● صحيح البخاري | 924 | عائشة بنت عبد الله | لم يخف علي مكانكم لكني خشيت أن تفرض عليكم فتعجزوا عنها |
● صحيح البخاري | 1129 | عائشة بنت عبد الله | خشيت أن تفرض عليكم |
● صحيح البخاري | 2012 | عائشة بنت عبد الله | خشيت أن تفترض عليكم فتعجزوا عنها |
● صحيح البخاري | 2011 | عائشة بنت عبد الله | صلى وذلك في رمضان |
● صحيح مسلم | 1783 | عائشة بنت عبد الله | رأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن تفرض عليكم قال وذلك في رمضان |
● صحيح مسلم | 1784 | عائشة بنت عبد الله | لم يخف علي شأنكم الليلة ولكني خشيت أن تفرض عليكم صلاة الليل فتعجزوا عنها |
● سنن أبي داود | 1373 | عائشة بنت عبد الله | رأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن يفرض عليكم وذلك في رمضان |
● سنن النسائى الصغرى | 1605 | عائشة بنت عبد الله | رأيت الذي صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن يفرض عليكم |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 151 | عائشة بنت عبد الله | قد رايت الذى صنعتم فلم يمنعني من الخروج إليكم إلا اني خشيت ان يفرض عليكم |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 151
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1129، ومسلم 761، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ نماز تراویح سنت ہے واجب یا فرض نہیں ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 759/174 و الموطأ رواية يحييٰ 113/1 ح 247]
➋ چونکہ اب فرضیت کا خوف زائل ہو گیا ہے لہذا نماز تراویح با جماعت افضل ہے۔ دیکھئے: [الموطأ حديث: 29، تفقه 1، البخاري 2009، ومسلم 759/173]
➌ اس پر اجماع ہے کہ نوافل (تراویح وغیرہ) میں نہ اذان ہے اور نہ اقامت۔ [التمهيد 108/8]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بہت زیادہ مہربان اور شفیق تھے۔
➎ علمائے کرام کا تراویح کی تعداد میں بہت اختلاف ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 113/8، وعمدة القاري للعيني 126/11، والحاوي للفتاوي 338/1، والفهم لما اشكل من تلخيص كتاب مسلم 389/2، وسنن الترمذي 806]
قرطبی (متوفی 656 ھ) نے کہا:
”اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئے، انھوں نے اس مسئلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سابق سے استدلال کیا ہے۔ [المفهم:390/2]
➏ بیس تراویح پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔ امام شافعی نے فرمایا: ”اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور (یہ) مجھے زیادہ پسند ہے۔“ [ملخصاً / مقريزي كي مختصر قيام اليل للمروزي ص202، 203، تعداد ركعات قيام رمضان كا جائزه ص 85]
➐ اس حدیث سے صحابہ کرام کا شوق عبادت ظاہر ہوتا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 36
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1605
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تہجد) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپ کی نماز کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ نے آنے والی رات میں بھی نماز پڑھی اور لوگ بڑھ گئے تھے، پھر تیسری یا چوتھی رات میں لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نکلے ہی نہیں، پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”تم نے جو دلچسپی دکھائی اسے میں نے دیکھا، تو تمہاری طرف نکلنے سے مجھے صرف اس چیز نے روک دیا کہ میں ڈرا کہ کہیں وہ تمہارے اوپر فرض نہ کر دی جائے“، یہ رمضان کا واقعہ تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1605]
1605۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے فوائدومسائل حدیث نمبر: 1600
➋ مذکورہ روایت میں یہ ہے کہ تیسری یا چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے جبکہ ایک صحیح روایت میں صراحت ہے کہ تین راتیں لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز تراویح پڑھی اور آپ نے انہیں تینوں راتیں آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے تھے۔ چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے۔ دیکھیے: (مسند ابی یعلی بتحقیق شیختا ارشاد الحق الاثر، برقم: 1796، وقال الذھبی: اسنادہ وسط، و میزان الاعتدال: 3؍211، وصحیح ابن خزیمہ، رقم: 1070، وصحیح ابن حیان، رقم: 2451 فی مواضع)
➌ معلوم ہوا کہ لوگوں کا ذوق شوق اور نفل کام پر اصرار بھی فرضیت کا ایک سبب ہے جس طرح اور بھی بہت سے اسباب ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا امر بھی ہو گیا تو وہ فرض ہو جائے گاور نہ باوجود مداومت اور اصرار کے نفل ہی رہے گا۔ ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ نفل پر مداومت نہیں کرنی چاہیے۔ خصوصاً اب جبکہ فرضیت کا امکان ہی نہیں تو کسی بھی نفل پر مداومت، اصرار اور پابندی میں کوئی حرج نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1605
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1373
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی تو آپ کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی رات کو بھی پڑھی تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی پھر تیسری رات کو بھی لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہی نہیں، جب صبح ہوئی تو فرمایا: ”میں نے تمہارے عمل کو دیکھا، لیکن مجھے سوائے اس اندیشے کے کسی اور چیز نے نکلنے سے نہیں روکا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے ۱؎“ اور یہ بات رمضان کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1373]
1373. اردو حاشیہ: فائدہ: صحیح بخاری میں تیسری رات بھی نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ دیکھئے [صحیح بخاری، الجمعة، حدیث:924]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1373
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1783
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی تو کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپﷺ نے دوسری ر ات نماز پڑھی تو لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا، پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر ان کے پاس تشریف نہ یں لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے تمہارے پاس آنے سے صرف اس چیز نے روکا کہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1783]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرے میں صرف تین دن مسجد میں تراویح کی جماعت کرائی ہے اور اس میں آٹھ رکعات تراویح اور تین وتر پڑھے ہیں۔
چونکہ ہر دن لوگوں کے شوق اوررغبت میں اضافہ ہوتا رہا اور ان کی تعداد بڑھتی رہی اس لیے آپﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا شوق ورغبت دیکھ کر یہ خطرہ محسوس فرمایا کہ کہیں اس شوق ورغبت کی بنا پر اللہ تعالیٰ تراویح کو لازم نہ ٹھہرا دے،
اس لیے آپﷺ نے جماعت موقوف فرما دی اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ پانچ فرائض پر اضافہ تو نہیں ہو سکتا تھا۔
کیونکہ پانچ نمازیں توروزانہ پڑھی جاتی ہیں اورتراویح کا تعلق صرف ماہ رمضان سے ہے۔
اس لیے اس کی فرضیت سے پانچ نمازوں میں اضافہ نہ ہوتا۔
رمضان تو صرف ایک ماہ ہی ہے اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے،
کہ تراویح نمازِ نفل ہی رہتی لیکن جس نے پڑھنی ہوتی اس کو جماعت کی پابندی لازماً کرنی پڑتی۔
اب آپﷺ کے بعد چونکہ وحی کا آنا بند ہو گیا ہے اور نیا حکم جاری نہیں ہو سکتا اس لیے جماعت کی صورت میں تراویح پڑھنے کی فرضیت کا خطرہ نہیں رہا،
اس لیے اب امت کے اکثرعلماء امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اکثر اصحاب (ساتھی)
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور بعض مالکیہ کے نزدیک تراویح جماعت کےساتھ پڑھنا افضل ہے۔
کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور سے لے کر آج تک مسلمانوں کا اس پرعمل ہے۔
اور یہ مسلمانوں کا امتیاز اور شعار کی شکل اختیار کر گئی ہے لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اوربعض شوافع رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کا گھر میں انفرادی طور پر اہتمام کرنا افضل ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1783
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1784
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نکلے اور مسجد میں نماز پڑھنی شروع کی، کچھ لوگوں نے آپﷺ کی اقتداء میں پڑھی، صبح ہوئی تو لوگوں نے اس کا چرچا کیا، اور لوگ پہلے سے زیادہ جمع ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم د وسری رات نکلے اور لوگوں نے آپﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھی، صبح ہوئی تو لوگوں نے اس کا تذکرہ کیا، تیسری رات لوگ مسجد میں زیادہ جمع ہو گئے، تو آپﷺ نکلے اور انہوں نے آپﷺ کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1784]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر انسان کے لیے کوئی چیز لازم اور فرض نہ ہو،
محض اس کو اس کا شوق اور رغبت دلائی جائے تو وہ اس کو اپنے لیے گراں اور مشکل نہیں سمجھتا لیکن فرضیت کی صورت میں پابندی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس لیے شریعت میں نوافل کے مقابلہ میں فرائض کی تعداد کم ہے۔
اگر تراویح باجماعت کم ہو جاتی تو انسان اس کا پابند ہو جاتا اس لیے وہ اس میں گرانی اورمشقت سمجھتا اور اس سے عقیدت کے باجود کمزوری اور بے بسی کا اظہار کرتا،
جس کا آج ہم فرض نمازوں کی پابندی کی صورت میں مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کتنے فیصد لوگ نماز باجماعت کا اہتمام اور پابندی کرتے ہیں۔
اس لیے آپﷺ نے فرمایا:
”(فَتَعْجَزوا عنها)
تم اس کو گراں سمجھتے اور عاجزی وکمزوری کا اظہار کرتے۔
نوٹ:
یہاں ہندو پاک کے نسخوں میں باب ہے،
کہ شب قدر کے مندوب قیام کی تاکید اور ان کی دلیل جو کہتے ہیں کہ شب قدر ستائیسویں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1784
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1129
1129. ام المومنین حضرت عائشہ ؓ ہی سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز (تہجد) ادا کی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر دوسری رات بھی آپ نے اسے مسجد میں ادا کیا تو لوگ زیادہ جمع ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس باہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”میں تمہارے جذبات کو ملاحظہ کرتا رہا لیکن مجھے اس بات نے آپ لوگوں کے پاس آنے سے باز رکھا کہ مبادا نمازِ شب تم پر فرض ہو جائے۔“ واضح رہے کہ یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1129]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے چند راتوں میں رمضان کی نفل نماز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو جماعت سے پڑھائی بعد میں اس خیال سے کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے آپ نے جماعت کا اہتمام ترک فرمادیا۔
اس سے رمضان شریف میں نماز تراویح با جماعت کی مشروعیت ثابت ہوئی۔
آپ نے یہ نفل نماز گیارہ رکعات پڑھائی تھی۔
جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے۔
چنانچہ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
وأما العدد الثابت عنه صلی اللہ علیه وسلم في صلوته في رمضان فأخرج البخاري وغیرہ عن عائشة أنھا قالت ماکان النبي صلی اللہ علیه وسلم یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة وأخرج ابن حبان في صحیحه من حدیث جابر أنه صلی اللہ علیه وسلم صلیٰ بھم ثمان رکعات ثم أوتر۔
(نیل الأوطار)
اور رمضان کی اس نماز میں آنحضرت ﷺ سے جو عدد صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں وہ یہ کہ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے رمضان اور غیر رمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں فرمایا اور مسند ابن حبان میں بسند صحیح مزید وضاحت یہ موجود ہے کہ آپ نے آٹھ رکعتیں پڑھائیں پھر تین وتر پڑھائے۔
پس ثابت ہوا کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو رمضان میں تراویح باجماعت گیارہ رکعات پڑھائی تھیں اور تراویح وتہجد میں یہی عدد مسنون ہے، باقی تفصیلات اپنے مقام پر آئیں گی۔
إن شاءاللہ تعالی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1129
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 924
924. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ آدھی رات کے وقت گھر سے نکلے تو مسجد میں آ کر نماز پڑھی۔ کچھ لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے تو دوسرے روز ان سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کی۔ صبح کو لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا تو تیسری رات ان سے بھی زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو لوگوں نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر جب چوتھی رات ہوئی تو لوگ اس قدر جمع ہوئے کہ مسجد میں گنجائش نہ رہی۔ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب فجر کی نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف توجہ فرمائی۔ تشہد، یعنی خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا: ”أمابعد! بےشک تمہارا اجتماع مجھ سے مخفی نہ تھا لیکن مجھے خوف ہوا کہ مبادا تم پر فرض ہو جائے تو پھر تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ گے۔“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:924]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کئی جگہ آئی ہے یہاں اس مقصد کے تحت لائی گئی کہ آنحضرت ﷺ نے وعظ میں لفظ أما بعد استعمال فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 924
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:729
729. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نماز تہجد اپنے حجرے میں پڑھا کرتے تھے۔ چونکہ حجرے کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں، اس لیے لوگوں نے نبی ﷺ کی شخصیت کو دیکھ لیا اور کچھ لوگ نماز کی اقتدا کرنے کے لیے آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ پھر صبح کو انہوں نے دوسروں سے اس کا ذکر کیا۔ بعد ازاں دوسری رات نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ اس رات بھی آپ کی اقتدا میں کھڑے ہو گئے۔ یہ صورت حال دو یا تین راتوں تک رہی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ بیٹھ رہے اور نماز کے لیے تشریف نہ لائے۔ اس کے بعد صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ کہیں نماز شب تم پر فرض نہ کر دی جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:729]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ امام اور مقتدیوں کے درمیان دیوار یا راستہ حائل ہوتو بھی اقتدا صحیح ہے بشرطیکہ امام کی تکبیر خود سنے یا کوئی دوسرا سنادے۔
دور حاضر میں لاؤڈ سپیکر نے اس مشکل کو کافی حد تک آسان کردیا ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تائید میں احادیث وآثار پیش کیے ہیں۔
احناف نے مسجد اور صحراء کا فرق کرکے تکلف سے کام لیا ہے۔
(2)
حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ آپ کے گھر سے متعلق ہے کیونکہ اس میں حجرے کی دیواروں کا ذکر ہے، چنانچہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے حجروں میں سے کسی ایک حجرے میں نماز شب پڑھا کرتے تھے، البتہ بعض شارحین نے اس سے مراد جائے اعتکاف لی ہے اور جدار سے مراد بوریوں کی دیوار لی ہے، جیسا کہ آئندہ روایات میں اس کا ذکر ہے۔
ہمارے نزدیک یہ دو الگ الگ واقعات ہیں، کیونکہ جدار سے مراد بوریوں کی دیوار ہو، یہ بہت بڑا مجاز ہے جس کی مثال کلام عرب میں نہیں ملتی۔
والله أعلم۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ حجرے کے اندر نماز پڑھتے تھے اور لوگوں نے آپ کی اقتدا باہر کھڑے ہوکر کی، آپ کے اور لوگوں کے درمیان دیوار حائل تھی اسے برقرار رکھا گیا، لہٰذا ایسا کرنا جائز ہے۔
(فتح الباري: 278/2)
وهو المقصود.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 729
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:924
924. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ آدھی رات کے وقت گھر سے نکلے تو مسجد میں آ کر نماز پڑھی۔ کچھ لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے تو دوسرے روز ان سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کی۔ صبح کو لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا تو تیسری رات ان سے بھی زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو لوگوں نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر جب چوتھی رات ہوئی تو لوگ اس قدر جمع ہوئے کہ مسجد میں گنجائش نہ رہی۔ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب فجر کی نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف توجہ فرمائی۔ تشہد، یعنی خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا: ”أمابعد! بےشک تمہارا اجتماع مجھ سے مخفی نہ تھا لیکن مجھے خوف ہوا کہ مبادا تم پر فرض ہو جائے تو پھر تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ گے۔“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:924]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں أما بعد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
امام بخاری ؒ نے صرف اسی مقصد کے پیش نظر اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب التہجد میں بیان کریں گے۔
إن شاءاللہ نوٹ:
یونس بن یزید کی متابعت کو امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 520/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 924
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1129
1129. ام المومنین حضرت عائشہ ؓ ہی سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز (تہجد) ادا کی تو لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر دوسری رات بھی آپ نے اسے مسجد میں ادا کیا تو لوگ زیادہ جمع ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ اس سے بھی زیادہ جمع ہو گئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس باہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”میں تمہارے جذبات کو ملاحظہ کرتا رہا لیکن مجھے اس بات نے آپ لوگوں کے پاس آنے سے باز رکھا کہ مبادا نمازِ شب تم پر فرض ہو جائے۔“ واضح رہے کہ یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1129]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کا خود تین رات نماز شب کا اہتمام کرنا اور لوگوں کا آپ کے ساتھ اسے ادا کرنا اس سے ترغیب ثابت ہوتی ہے، پھر فرض ہونے کے اندیشے کے پیش نظر باہر تشریف نہ لانا اس کے عدم وجوب کی دلیل ہے۔
امام بخاری ؒ اس سے یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
(2)
اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفل نماز کی جماعت صحیح ہے، لیکن اس کے لیے لوگوں کو دعوت دینا صحیح نہیں، البتہ نماز تراویح کا معاملہ اس سے الگ ہے، کیونکہ حضرت عمر ؓ نے، فرضیت کا اندیشہ، جس کے باعث نبی ؓ نے جماعت تراویح ترک کی تھی، ختم ہونے پر اپنے دور خلافت میں اس کی جماعت کا اہتمام سرکاری طور پر فرمایا تھا، کیونکہ اس وقت فرضیت کا اندیشہ نہیں رہا تھا۔
تراویح کے علاوہ دیگر نوافل تداعی کے بغیر جماعت سے پڑھے جا سکتے ہیں۔
تداعی کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کو اس کے لیے اہتمام کے ساتھ دعوت دی جائے۔
ایسا کرنا صحیح نہیں۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے شروع نماز میں امامت کی نیت نہیں کی، اس کی اقتدا میں نماز باجماعت ادا کی جا سکتی ہے۔
اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اسے محل نظر قرار دیا ہے، لیکن دیگر احادیث سے حافظ ابن حجر ؒ کا موقف محل نظر قرار پاتا ہے۔
جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے جبکہ انہوں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر رات گزاری تھی اور رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز شب میں شامل ہوئے تھے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1129
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2012
2012. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (رمضان میں) ایک مرتبہ نصف شب کے وقت مسجد میں تشریف لے گئے تو وہاں نماز تراویح پڑھی۔ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔ صبح ہوئی تو انھوں نے اس کا چرچا کیا، چنانچہ دوسری رات لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہوگئے اور آپ کے ہمراہ نماز (تراویح)پڑھی دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا۔ پھرتیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کی اقتدا میں نماز (تراویح) اداکی۔ جب چوتھی رات آئی تو اتنے لوگ جمع ہوئے کہ مسجد نمازیوں سے عاجز آگئی یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لیے آپ باہر تشریف لائے۔ جب نماز فجر پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، خطبہ پڑھا پھر فرمایا: ”واقعہ یہ ہے کہ تمھارا موجود ہونا مجھ پر مخفی نہ تھالیکن مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا نماز شب فرض ہو جائے، پھر تم اسے ادانہ کر سکو۔“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2012]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے جو نماز تراویح کا باقاعدہ اہتمام کیا تھا وہ بے بنیاد نہ تھا۔
ان احادیث میں اس بنیاد کو بیان کیا گیا ہے جس پر حضرت عمر فاروق ؓ نے تراویح باجماعت ادا کرنے کی عمارت کھڑی کی۔
(2)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھائی، صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز ادا کی۔
دوسری رات آپ نے یہ نماز پڑھائی تو نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی۔
تیسری یا چوتھی رات تو یہ تعداد ایک بڑے اجتماع کی صورت اختیار کر گئی۔
رسول اللہ ﷺ اس رات نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے، صبح کے وقت آپ نے فرمایا:
”جتنی بڑی تعداد میں تم لوگ جمع ہو گئے تھے میں نے اسے دیکھا لیکن یہ خدشہ میرے باہر آنے کے لیے رکاوٹ بنا رہا کہ مبادا نماز تم پر فرض ہو جائے۔
“ یہ رمضان کا واقعہ ہے۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1129)
اس رات رسول اللہ ﷺ نے کتنی رکعات پڑھائیں اسے حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے۔
آئندہ رات ہم مسجد میں جمع ہوئے اور ہمیں امید تھی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائيں گے لیکن آپ مسجد میں نہ آئے، صبح کے وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمیں آپ کے تشریف لانے کی امید تھی، آپ نے فرمایا:
”میں نے یہ ناپسند کیا کہ تم پر وتر فرض ہو جائیں۔
“ (صحیح ابن خزیمة: 138/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2012