موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث 657 :حدیث نمبر

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
मुवत्ता इमाम मलिक रवायात इब्न अल-क़ासिम
طریقہ نماز کا بیان
नमाज़ पढ़ने का तरीक़ा
4. نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا چاہئیے
“ नमाज़ में सीने (छाती ) पर हाथ बांधना चाहियें ”
حدیث نمبر: 115
Save to word مکررات اعراب Hindi
409- وبه: عن سهل انه قال: كان الناس يؤمرون ان يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى فى الصلاة، قال ابو حازم: ولا اعلم إلا انه ينمي ذلك.409- وبه: عن سهل أنه قال: كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل يده اليمنى على ذراعه اليسرى فى الصلاة، قال أبو حازم: ولا أعلم إلا أنه ينمي ذلك.
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا سہل (بن سعد الساعدی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔ ابوحازم رحمہ اللہ نے فرمایا: میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اسے مرفوع بیان کرتے تھے۔
इसी सनद के साथ हज़रत सहल (बिन साअद अस-साअदी) रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि लोगों को ये हुक्म दिया जाता था कि आदमी अपना दायाँ हाथ अपने बाएँ बाज़ू (उँगलियों से कोहनी तक) पर रखे। अबु हाज़िम रहम अल्लाह ने कहा ! मैं यही जानता हूँ कि वह इसे मरफ़ूअ बयान करते थे।

تخریج الحدیث: «409- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 159/1ح 377، ك 9 ب 15 ح 47) التمهيد 96/21، الاستذكار: 347، و أخرجه البخاري (740) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 115 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 115  
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 740 من حديث مالك به]

تفقه:
➊ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کی احادیث متعدد صحابہ سے صحیح یا حسن اسانید کے ساتھ مروی ہیں، مثلاً:
① وائل بن حجر رضی اللہ عنہ [مسلم 401 و ابوداؤد 727]
② جابر رضی اللہ عنہ [أحمد 381/3 ح 15152 و سنده حسن]
③ ابن عباس رضی اللہ عنہ [صحيح ابن حبان الموارد 885 و سنده صحيح]
④ عبد اللہ بن جابر البیاضی رضی اللہ عنہ [معرفة الصحابة لابي نعيم الاصبهاني 610/3 ح 4054 و سنه حسن و اور ده الضياء فى المختارة 130/9 ح 114]
⑤ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ [ابوداود: 755 وابن ماجه: 811 وسنده حسن]
⑥ عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ [ابوداود: 754 واسناده حسن واور ده الضياء المقدسي فى المختارة 9/301 ح257،]
● یہ حدیث متواتر ہے۔ [نظم المتناثر من الحديث المتواتر ص98 ح68،]
تنبیہ:
المعجم الکبیر للطبرانی (20/74 ح139) کی جس روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے اور کبھی کبھار دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے۔ اس میں خُصیب بن جحدر راوی کذاب ہے۔ [مجمع الزوائد 2/102]، نيز ديكهئے: لسان الميزان 2/486، لہٰذا یہ سند موضوع ہے۔ نیز دیکھئے: میری کتاب نماز میں سینے پر ہاتہ باندہنے کا حکم اور مقام [ص8]
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینہ پر آ جائیں گے۔ دیکھئے تفقہ نمبر ➑
● ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت، رُسغ (کلائی) اور ساعد (کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا۔ [سنن نسائي مع حاشية السندهي: ج1 ص141 ح890، ابوداود ج1 ص112 ح727] اسے [ابن خزيمه 1/243 ح48] اور [ابن حبان الاحسان: 2/202 ح485] نے صحیح کہا ہے۔
● سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں آیا ہے: «يضيع هٰذه علٰي صدره۔۔ الخ» آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔۔۔۔۔۔ الخ [مسند أحمد ج5 ص 226 ح22313، واللفظ له، التحقيق لابن الجوزي ج1 ص 283 ح 477 و فى نسخة ج1 ص 338 و سنده حسن]
➋ سنن ابی داود [ح756] وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے، علامہ نووی نے کہا: عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے۔ [نصب الراية للزيلعي الحنفي 1/314]
● نیموی فرماتے ہیں: «وفيه عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وهو ضعيف» اور اس میں عبد الرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور و ہ ضعیف ہے۔ [حاشيه آثار السنن ح 330،]
● مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فى شرح الہدایۃ [208/2] وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ [17 106/1] میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے
➌ یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے اور عورتیں سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعاً ثابت نہیں ہے، یہ مرد اور عورت کی نماز میں جو فرق کیا جاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران میں بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اور عورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں یہ سب اہل الرائے کی موشگافیاں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے نماز کی ہیئت، تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کے لئے ایک ہی ہے، صرف لباس، آواز اور پردے میں فرق ہے کہ عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی اور اس کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہونے چاہئیں۔ اہلِ حدیث کے نزدیک جو فرق دلیل ونصِ صریح سے ثابت ہو جائے تو برحق ہے، اور بے دلیل وضعیف باتیں مردود کے حکم میں ہیں۔
➍ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب «تحت السرة» (ناف کے نیچے) والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: منکر الحدیث [تقريب التهذيب: 2304] نیز دیکھئے: [مختصرا لخلافيات للبيهقي 1/342، تاليف ابن فرح الاشبيلي والخلافيات مخطوط ص37ب] اور کتب اسماء الرجال۔
◄ بعض لوگ مصنف ابی شیبہ سے «تحت السرة» والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے اصل قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں «تحت السرة» کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطللو بغا [كذاب بقول البقاعي/الضوء اللا مع 182/2] نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔ انور شاہ کشمیری دیوبندی نے کہا: پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے۔ [فيض الباري 2/267]
➏ حنبلیوں کے نزدیک مردوں اور عورتوں دونوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ [الفقه على المذاهب الاربعة 251/1]
➐ تقلیدی مالکیوں کی غیر مستند اور مشکوک کتاب «المدونة» میں لکھا ہوا ہے کہ امام مالک نے ہاتھ باندھنے کے بارے میں فرمایا:
مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں امام مالک اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ اگر نوافل میں قیام لمبا ہو تو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح وہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے۔ ديكهئے [المدونة 1/76]
◄ اس غیر ثابت حوالے کی تردید کے لئے موطأ امام مالک کی تبویب اور امام مالک کی روایت کردہ حدیثِ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہی کافی ہے۔
➑ ہاتھ کی بڑی انگلی سے لے کر کہنی تک کے حصے کو «ذراع» کہتے ہیں۔
➒ سعید بن جبیر (تابعی) فرماتے ہیں کہ نماز میں «فوق السرة» یعنی ناف سے اوپر (سینے پر) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ [امالي عبد الرزاق/الفوائد لابن مندة 324/2 ح 1899 و سنده صحيح]
➓ سینے پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں مزید تحقیق کے لئے راقم الحروف کی کتاب نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں۔ والحمدللہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 409   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.