ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صیام رمضان رکھے تو آپ نے ہمیں نماز
(تراویح) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا
(یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی۔ پھر جب چھ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا،
(یعنی تہجد نہیں پڑھی) اور جب پانچ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا
(یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی۔ تو ہم نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس رات کے باقی ماندہ حصہ میں بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے
(تو بہتر ہوتا)؟ آپ نے فرمایا:
”جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا، پھر آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ مہینے کے صرف تین دن باقی رہ گئے، پھر آپ نے ہمیں ستائیسویں رات کو نماز پڑھائی۔ اور اپنے گھر والوں اور اپنی عورتوں کو بھی بلایا، آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں فلاح کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوا۔
(راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا: فلاح کیا چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا: سحری ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، نعمان بن بشیر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا،
۴- اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے،
۵- احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں
۱؎ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی،
۶- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں،
۷- ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کیا ہے،
۸- شافعی نے اکیلے پڑھنے کو پسند کیا ہے جب وہ قاری ہو۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 806
اردو حاشہ:
1؎:
امام ترمذی نے اس سلسلے میں صرف دو قول کا ذکر کیا ہے ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اقوال اس سلسلہ میں وارد ہیں ان میں راجح اور مختار اور دلائل کے اعتبار سے سب سے قوی گیارہ رکعت کا قول ہے،
کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے صحیح سند سے یہی قول ثابت ہے دیگر اقوال میں سے کوئی بھی آپ سے صحیح سند سے ثابت نہیں اور نہ ہی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے صحیح سند سے ثابت ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 806
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1365
´نماز پڑھنے اور فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہنے والے کے ثواب کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ رمضان کے مہینہ کی سات راتیں رہ گئیں، تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے ہوئے (اور پڑھاتے رہے) یہاں تک کہ تہائی رات کے قریب گزر گئی، پھر چھٹی رات آئی لیکن آپ ہمیں پڑھانے کھڑے نہیں ہوئے، پھر جب پانچویں رات آئی تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے کھڑے ہوئے (اور پڑھاتے رہے) یہاں تک کہ تقریباً آدھی رات گزر گئی، تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ یہ رات پوری پڑھاتے، آپ نے فرمایا: ”آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام شمار کیا جاتا ہے“، پھر چوتھی رات آئی تو آپ ہمیں تراویح پڑھانے نہیں کھڑے ہوئے، پھر جب رمضان کے مہینہ کی تین راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو کہلا بھیجا اور لوگوں کو بھی جمع کیا، اور ہمیں تراویح پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں خوف ہوا کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، پھر اس کے بعد مہینہ کے باقی دنوں میں آپ نے ہمیں تراویح نہیں پڑھائی۔ داود بن ابی ہند کہتے ہیں: میں نے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ تو انہوں نے (ولید بن عبدالرحمٰن نے) کہا: سحری کھانا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1365]
1365۔ اردو حاشیہ:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بعد کی راتوں میں تراویح نہ پڑھانا فرضیت کے ڈر سے تھا جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد یہ ڈر نہ رہا، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مستقل جماعت شروع کرا دی جس پر آج تک امت متفق ہے۔ سواب یہی سنت ہے۔ خصوصاً جب کہ قراء اور حفاظ کی کثرت نہیں رہی اور لمبی نماز کا شوق بھی عنقا ہے۔
➋ عہدِ رسالت اور عہد صحابہ و تابعین میں رات کے قیام، یعنی تہجد کو قیام اللیل یا تہجد کہا جاتا تھا، اس حدیث میں بھی اس کے لیے قیام ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ بعد میں رمضان کے قیام کو ”تراویح“ کہا: جانے لگا جو ترویحہ کی جمع ہے، تاہم تہجد، قیام اللیل اور تراویح ایک ہی نماز (تہجد) کا نام ہے، البتہ رمضان کے قیام کے لیے تراویح کا لفظ معروف ہو گیا ہے، علاوہ ازیں عوام کی سہولت کے پیش نظر اسے عشاء کی نماز کے فوراًً بعد پڑھ لیا جاتا ہے کیونکہ تہجد کے وقت کا آغاز نماز عشاء کے بعد شروع ہو جاتا اور طلوع فجر تک رہتا ہے۔ گو اس کا عام دنوں میں افضل وقت ثلث لیل کا آخری پہر ہی ہے، تاہم اسے رمضان المبارک کے اول وقت میں باجماعت پڑھنا افضل ہے۔
➌ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں قیام کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ لیلۃ القدر انھی میں سے ایک رات ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1365
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1606
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تہجد) کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں روزے رکھے، تو آپ ہمارے ساتھ (تراویح کے لیے) کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ مہینے کی سات راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات کو قیام نہیں کیا، پھر پچیسویں رات کو قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ ہماری اس رات کے باقی حصہ میں بھی اسی طرح نفلی نماز پڑھاتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے حق میں پوری رات کے قیام (کا ثواب) لکھے گا“، پھر آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، اور نہ آپ نے قیام کیا یہاں تک کہ مہینے کی تین راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے ستائیسویں رات میں ہمارے ساتھ قیام کیا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی جمع کیا یہاں تک کہ ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، میں نے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ کہنے لگے: سحری ہے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1606]
1606۔ اردو حاشیہ:
➊ ظاہر تو یہی ہے کہ یہ حدیث ماقبل حدیث ہی کی تفصیل ہے، لہٰذا رکعات تو تینوں راتوں میں گیارہ ہی تھیں مگر دوسری رات میں پہلی رات سے اور تیسری رات میں دوسری رات سے قرأت طویل کر کے رکعات کو لمبا کر دیا گیا۔
➋ ”امام کے ساتھ۔۔۔“ معلوم ہوا امام کے ساتھ تراویح یا قیام اللیل کرنا اکیلے پڑھنے سے بہت افضل ہے۔ آپ کے دور میں مجبوری تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1606
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1327
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے کسی بھی رات ہمارے ساتھ نماز تراویح نہ ادا فرمائی، یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں، تو ساتویں (یعنی تیئیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ رات تہائی کے قریب گزر گئی، پھر اس کے بعد چھٹی (یعنی چوبیسویں) رات کو جو اس کے بعد آتی ہے، آپ نے قیام نہیں کیا یہاں تک کہ اس کے بعد والی پانچویں یعنی (پچیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ رات آدھی کے قریب گزر گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ باقی رات ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1327]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت کا اہتمام معمول سے زیادہ کرنا چاہیے۔
(2)
نماز تراویح نفل نماز ہے۔
اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا مہینہ نہیں پڑھائی۔
صرف چند راتیں پڑھائی۔
(3)
نماز تراویح میں قیام رکوع اور سجود وغیرہ طویل ہونے سے زیادہ وقت تک نماز اد کی جا سکتی ہے۔
اور کم تلاوت اور مختصر رکوع وسجود کے ساتھ کم وقت میں بھی فراغت حاصل کی جا سکتی ہے۔
اس میں عام نمازیوں کے شوق اور ہمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
(4)
نفل نماز میں تلاوت کی کوئی خاص مقد ار مقرر کرنا ضروری نہیں۔
کسی دن طویل اور کسی دن مختصر قیام ہوسکتا ہے۔
(5)
طویل نماز پڑھنے کا ارادہ ہو تو تلاوت زیادہ کرلی جائے۔
یا تلاوت ترتیل کے ساتھ کی جائے رکعتیں زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
کسی روایت میں یہ صراحت نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان راتوں میں رکعتوں کی تعداد میں اضافہ فرمایا تھا۔
بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رمضان میں بھی اوردوسرے مہینوں میں بھی وتروں سمیت گیارہ رکعت ہی ہوتی تھی۔ (صحیح البخاري، التھجد، باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فی رمضان وغیرہ، حدیث: 1147)
(6)
نماز تراویح میں عورتوں اور بچوں کو بھی شریک ہونا چاہیے۔
(7)
سحری کا کھانا بھی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے روزوں میں امتیاز بھی ہے۔
اور باعث برکت بھی اس لئے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے اسے فلاح یعنی کامیابی کا نام دیا ہے۔
(8)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا رمضان تراویح نہیں پڑھائی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ محسوس ہوا کہ اگر فرض ہوگئی۔
تو امت کو اس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چونکہ یہ خطرہ نہیں رہا اس لئے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے پورا مہینہ باجماعت تراویح کا اہتمام فرمایا۔
ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام ر مضان کی ترغٰب دی تھی۔
اس لئے اس پر عمل کرنا مسنون ہے۔
اسے بدعت میں شما ر نہیں کیا جاسکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1327