(مرفوع) حدثنا قتيبة، واحمد بن عبدة، قالا: حدثنا حماد بن زيد، عن غيلان بن جرير، عن عبد الله بن معبد، عن ابي قتادة، قال: قيل: يا رسول الله كيف بمن صام الدهر؟ قال: " لا صام ولا افطر او لم يصم ولم يفطر ". وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وعبد الله بن الشخير، وعمران بن حصين، وابي موسى. قال ابو عيسى: حديث ابي قتادة حديث حسن، وقد كره قوم من اهل العلم صيام الدهر واجازه قوم آخرون، وقالوا: إنما يكون صيام الدهر إذا لم يفطر يوم الفطر ويوم الاضحى وايام التشريق، فمن افطر هذه الايام فقد خرج من حد الكراهية ولا يكون قد صام الدهر كله، هكذا روي عن مالك بن انس، وهو قول الشافعي، وقال احمد، وإسحاق نحوا من هذا، وقالا: لا يجب ان يفطر اياما غير هذه الخمسة الايام التي نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عنها، يوم الفطر ويوم الاضحى وايام التشريق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ بِمَنْ صَامَ الدَّهْرَ؟ قَالَ: " لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ أَوْ لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ صِيَامَ الدَّهْرِ وَأَجَازَهُ قَوْمٌ آخَرُونَ، وَقَالُوا: إِنَّمَا يَكُونُ صِيَامُ الدَّهْرِ إِذَا لَمْ يُفْطِرْ يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَى وَأَيَّامَ التَّشْرِيقِ، فَمَنْ أَفْطَرَ هَذِهِ الْأَيَّامَ فَقَدْ خَرَجَ مِنْ حَدِّ الْكَرَاهِيَةِ وَلَا يَكُونُ قَدْ صَامَ الدَّهْرَ كُلَّهُ، هَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق نَحْوًا مِنْ هَذَا، وَقَالَا: لَا يَجِبُ أَنْ يُفْطِرَ أَيَّامًا غَيْرَ هَذِهِ الْخَمْسَةِ الْأَيَّامِ الَّتِي نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، يَوْمِ الْفِطْرِ وَيَوْمِ الْأَضْحَى وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ.
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اگر کوئی صوم الدھر (پورے سال روزے) رکھے تو کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوقتادہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن شخیر، عمران بن حصین اور ابوموسیٰ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے صوم الدھر کو مکروہ کہا ہے اور بعض دوسرے لوگوں نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صیام الدھر تو اس وقت ہو گا جب عید الفطر، عید الاضحی اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنا نہ چھوڑے، جس نے ان دنوں میں روزہ ترک کر دیا، وہ کراہت کی حد سے نکل گیا، اور وہ پورے سال روزہ رکھنے والا نہیں ہوا مالک بن انس سے اسی طرح مروی ہے اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی طرح کہتے ہیں، ان دونوں کا کہنا ہے کہ ان پانچ دنوں یوم الفطر، یوم الاضحی اور ایام تشریق میں روزہ رکھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، بقیہ دنوں میں افطار کرنا واجب نہیں ہے۔
وضاحت: ۱؎ راوی کو شک ہے کہ «لا صام ولا أفطر» کہا یا «لم يصم ولم يفطر» کہا (دونوں کے معنی ایک ہیں) ظاہر یہی ہے کہ یہ خبر ہے کہ اس نے روزہ نہیں رکھا کیونکہ اس نے سنت کی مخالفت کی، اور افطار نہیں کیا کیونکہ وہ بھوکا پیاسا رہا کچھ کھایا پیا نہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ بد دعا ہے، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اس فعل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 767
اردو حاشہ: 1؎: راوی کو شک ہے کہ ((لاَصَامَ وَلاَ أَفْطَرَ)) کہا یا ((لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ)) کہا (دونوں کے معنی ایک ہیں) ظاہر یہی ہے کہ یہ خبر ہے کہ اس نے روزہ نہیں رکھا کیونکہ اس نے سنت کی مخالفت کی، اور افطار نہیں کیا کیونکہ وہ بھوکا پیاسا رہا کچھ کھایا پیا نہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ بد دعا ہے، یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اس کے اس فعل پر اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 767
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2385
´اس سلسلہ میں غیلان بن جریر پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ناراض ہو گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اللہ کے رب (حقیقی معبود) ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر، راضی ہیں، نیز آپ سے ہمیشہ روزہ رکھنے والے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”اس نے نہ روزہ رکھا، نہ ہی افطار کیا۔“[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2385]
اردو حاشہ: (1)”ناراض ہوگئے۔“ کیونکہ آپ نے اپنی نیکی کے اظہار کو مناسب نہ سمجھا، اس لیے ایسے سوال پر ناراض ہوئے۔ یا آپ نے خطرہ محسوس فرمایا کہ اگر میں نے بتا دیا تو سائل یا دوسرے لوگ میری اقتدا کرنے کی کوشش کریں گے اور مشقت میں پڑیں گے۔ یا اس لیے ناراض ہوئے کہ عبادت کے مسئلہ، خصوصاً روزے میں آپ کی مماثلت کرنا منع ہے، مثلاً: وصال (کئی دنوں کا روزہ) آپ کا خاصہ ہے، کسی اور شخص کو ایک دن سے زائد کا روزہ (وصال کی صورت میں) رکھنے کی اجازت نہیں۔ واللہ أعلم (2)”راضی ہیں۔“ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے آپ پر نازل کردہ دین پر سختی سے کار بند ہیں، لہٰذا ہماری غلطی معاف فرمائیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2385
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1713
´داود علیہ السلام کے روزے کا بیان۔` ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! جو شخص دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھلا ایسا کرنے کی کسی میں طاقت ہے؟ انہوں نے کہا: وہ شخص کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے، پھر انہوں نے کہا: وہ شخص کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری تمنا ہے کہ مجھے اس کی طاقت ہوتی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1713]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) دو روزے رکھ کر ایک دن روزہ چھوڑنا اللہ کے نبی ﷺ نے پسند نہیں فرمایا کیو نکہ نبی ﷺ نے محسوس فرمایا کے عام انسان کے لئے یہ معمول اختیار کرنا مشکل ہے سوائے اس کے کہ کو ئی شخص غلو کا رستہ اختیا ر کرے جو مناسب نہیں- (2) حدیث میں مذ کور با قی دونو ں طریقے اللہ کے نبی ﷺ نے پسند فرمائے لہٰذا وہ جا ئز ہے- (3) تیسری صورت کے با رے نبی کریم ﷺ نے خواہش ظاہر فرمائی کہ مجھے اس کی طا قت ملے اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے دوسری بہت سی مصروفیا ت کی وجہ سے یہ معمول اختیار کر نا مشکل تھا اس لئے نفلی عبادات میں انسا ن کو وہ معمول اختیار کرنا چاہیے جس سے اس کے دوسرے فرائض کی ادائیگی میں خلل پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1713
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2747
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپﷺ کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: ہم راضی اور مطمئن ہیں اللہ کو رب مان کر، اسلام کو مقصد زندگی مان کر، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر، اور اپنی بیعت کی صحت و درستگی پر، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صوم دہر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا:... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2747]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ ہر ماہ کے تین روزوں کے بارے میں اختلاف ہے۔ شعبہ کے نزدیک ہر ماہ کے تین ابتدائی دن مراد ہیں بعض کے نزدیک ہرعشرہ کا پہلا دن، بعض کے نزدیک ایک ماہ میں ہفتہ، اتوار اورسوموار کو رکھے اور اگلے ماہ منگل، بدھ اور جمعرات کو رکھے، بعض کے نزدیک ہرماہ کے آخری دن مراد ہیں اور بعض کے نزدیک اس سے ایام ابیض مراد ہیں۔ اور آپﷺ کا طرزعمل یہی تھا، آپ نے تعین نہیں فرمائی تاکہ امت کے لیے سہولت اور آسانی پیدا ہو۔ 2۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کے روزے کے بارے میں فرمایا کہ وہ خیر وبرکت والا دن ہے، جس میں میری پیدائش ہوئی اوراس دن میری بعثت ہوئی، مجھ پر قرآن کا نزول شروع ہوا، گویا ایک محرک شکر کا جذبہ تھا کہ اس دن عظیم نعمتیں حاصل ہوئیں اور دوسرا محرک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ اس دن اعمال کی پیشی ہوتی ہے اور میں چاہتا ہوں اس پیشی کے دن میں روزہ سے ہوں اور یہ دوسرا محرک جمعرات کے روزہ میں بھی موجود ہے۔ 3۔ ایک عجیب وغریب استدلال اوراس کاجواب: آپﷺ سوموار کو روزہ رکھتے تھے جس کا سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا کہ یہ میری ولادت اور نبوت سے سرفرازی اور نزول قرآن کا دن ہےاس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم میلاد کی خوشی کی اور اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کیا، اس یوم میلاد کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی منانے اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ اور صورت معین فرما دی ہے اور آپﷺ نے زندگی بھر اس پر عمل کیا کہ آپﷺ ہمیشہ سوموار کو روزہ رکھتے تھے تو کیا اگرمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دن اگر کسی کو منانا ہے تو اس کا طریقہ اورصورت یہی نہیں ہے کہ سوموار کو روزہ رکھا جائے کیونکہ آپﷺ نے ولادت والے دن صرف روزہ رکھا ہے اس کے سوا اور کوئی کام نہیں کیا؟ اس سے ربیع الاول میں جلوس نکالنے، گانے بجانے، چراغان کرنے، آرائشی محرابوں ار دروازوں، گلی کوچوں اورمساجد میں روشنیوں کا استدلال کیسا ہوگیا؟ جبکہ آپﷺ کی پیروی اور اتباع کا تقاضا یہ ہے کہ آپﷺ کے معین کردہ طریقہ پر اضافہ نہ کیا جائے۔ آپﷺ ہرسوموار کو خوشی مناتے اور شکریہ ادا کرتے تو صرف ربیع الاول کی تخصیص کیوں کر لی گئی؟ جبکہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دن عام طور پر سوموار بھی نہیں ہوتا اگر یوم عاشورہ دس محرم کو دلیل بنایا جائے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے تو صرف روزہ رکھا، عید کا سلسلہ بعد میں یہود نے نکالا تو یہ یہود کی سنت اور طریقہ منانا ہے، نہ کہ موسیٰ علیہ السلام کی اقتدا کرنا ہے۔ مزید برآں آپﷺ کی پیدائش کا ماہ تعین نہیں ہے، بعض محرم مانتے ہیں بعض رمضان اور بعض ربیع الاول اور حقیقت یہ ہے کہ میلاد کا مہینہ متعین نہیں ہو سکتا کیونکہ آپﷺ کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی ہے جہاں نسی کا چال چلن اور رواج تھا جس کی بنا پر حج کے ماہ بھی بدل جاتے تھے اس لیے نسی کی تقدیم وتاخیر کی بنا پر آپﷺ کی پیدائش کا مہینہ صحیح طور پر متعین کرنا ممکن نہیں ہے جبکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ کی دنیوی زندگی اس مہینہ میں ختم ہوئی ہے اور اب سطح ارضی پر آپﷺ مسلمانوں کے سامنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سامنے کی طرح موجود نہیں ہیں، اس لیے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین تابعین رحمۃ اللہ علیہ اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ کا دور ختم ہو گیا اور اب یہ شرف کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا اور ایک بات یہ بھی ہے کہ خوشی منانے کا طریقہ اگر وہی ہے جوعید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں اختیار کیا جاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس دن آپﷺ کو نبوت ملی اور وحی کا سلسلہ شروع ہوا اور قرآن مجید سے یہ صراحتاً ثابت ہے کہ نزول قرآن کاآغاز رمضان میں ہوا ہے تو رمضان کے لیے عید کا طریقہ آج تک کیوں نہیں اختیار کیا گیا؟ ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا﴾ کو ملا علی قاری نے محفل میلاد کے لیے بطور دلیل پیش کیا ہے۔ اور اس فضل اور رحمت کا اصل مصداق تو نص قرآنی کی رو سے قرآن مجید ہے۔ اگرچہ آپﷺ کے رحمت ہونے میں بھی کوئی کلام نہیں ہے اور یہ عجیب بات ہے آپﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھنے کا تو حکم دیاتھا اور وہ بھی آغاز ہجرت میں تاکیدی اور احناف کے نزدیک وجوبی اور بعد میں اس تاکید کو بھی ختم کردیا، لیکن سوموار کے روزے کی تو آپﷺ نے تلقین اورتاکید بھی نہیں فرمائی اور اگر آپﷺ کے روزے رکھنے سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت ملتا تو یقیناً صحابہ، رضوان اللہ عنھم اجمعین تابعین رحمۃ اللہ علیہ اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے تین قرون جن کی خیریت کی آپﷺ نے گواہی دی ہے ان میں اس کو ضرور منایا جاتا یا کم از کم ائمہ اربعہ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ہی اس کی تلقین کرتے یا کم ا ز کم حدیث میں نہیں تو فقہ کی کتابوں میں ہی اس کا تذکرہ کیا جاتا۔ امام ملاعلی قاری نے اس سلسلہ میں جو انیس دلائل پیش کیے ہیں ان میں سے اکثریت کا ربیع الاول کی محافل سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ کام تو ہروقت مطلوب اور محبوب ہیں۔ عجیب بات ہے۔ سب سے پہلی دلیل ابولہب کی خوشی کے واقعہ کو بنایا ہے۔ جس نے بھتیجے کی ولادت کی خوشی میں لونڈی کو آزاد کیا تھا اس روایت میں ہے کے ابولہب نے لونڈی کو آپﷺ کی ولادت سے پہلے آزاد کیا تھا: (قَالَ عُرْوَةُ: وثُوَيْبَةُ مَوْلاةٌ لأَبِي لَهَبٍ, كَانَ أَبُو لَهَبٍ أَعْتَقَهَا) اس کےبعد خواب کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اس پر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھا ہے: (بأن الخبر مرسل، أرسله عروة، ولم يذكر من حدثه به) (فتح الباري المطبعة السلفیة ج9 ص 145) جبکہ اصل حقیقت کہ اس نے ثوبیہ کو ہجرت نبوی کے بعد آزاد کیا تھا۔ آپﷺ کی ولادت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ تفصیل کے لیے (طبقات ابن سعد ج1 108 ذکر من ارضع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الاصابة فی تمیز الصحابة ج: 4 ص 65 ابن حجر الاستیعاب فی الاسماء الاصحاب ج: 1 ص 12 ابن عبدالبر) اور کافر کا عمل نص قرآنی کی رو سے رائیگاں ہے سورہ فرقان میں ہے: ﴿وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا﴾ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ونبوت کے بعد وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن بن گیا تھا اور یہ واقعہ بخاری جلد2 میں موجود ہے۔ اورخواب کا واقعہ ہے۔ جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر کے تصدیق اورتائید بھی نہیں کروائی گئی تو یہ واقعہ محبت اور دلیل کیسے بن گیا کیا خواب شرعی دلیل اور حجت نہیں بن سکتا؟ سب سے بڑی اورقوی دلیل بدعت کی تقسیم کی ہے کہ یہ دعوت حسنہ ہے حالانکہ بقول مجدد الف ثانی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے کہ: (كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار) (دین میں) ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے تو پھر بدعت میں حسن کہاں سے پیدا ہو گیا وہ دوسری جگہ لکھتے ہیں۔ (علمائے کرام) نے کہا ہے بدعت کی دو قسمیں ہیں۔ حسنہ اور سئیہ حسنہ اس نیک عمل کو کہتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے زمانہ کے بعد پیدا ہوا ہو اور وہ سنت کو رفع نہ کرے اور بدعت سئیہ وہ ہے جو مانع سنت ہے۔ اس اصول کے مطابق بھی عید میلادالنبی بدعت سئیہ ہے کیونکہ یہ مانع سنت ہے ان حضرات میں سے اس دن روزہ جو اس دن کی سنت ہے، کتنے لوگ رکھتے ہیں؟ یہ فقیر ان بدعتوں میں سے کس بدعت میں حسن اور نورانیت کا مشاہدہ نہیں کرتا اور ظلمت کدورت کے سوا کچھ محسوس نہیں کرتا، اگر آج مبتدع کے عمل کو ضعف بصارت کی وجہ سے طہارت وتروتازگی میں دیکھتے ہیں، لیکن کل جب کہ بصیرت تیز ہو گی تو دیکھ لیں گے کہ اس کا نتیجہ انجام خسارت وندامت کے سوا کچھ نہ تھا۔ مجدد الف ثانی کا کلام بدعت کے سلسلہ میں قابل دید ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: مکتوبات امام ربانی دفتراول مکتوب نمبر186 دفتر دوم مکتب 21۔ اور23 نیزکیا عیدین کے لیے جبری غنڈہ گردی سے چندہ لیاجاتا ہے اور خلاف شریعت حرکتیں کی جاتی ہیں؟ جبکہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سب کچھ ہو رہا ہے۔