جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ کی طرف نکلے تو آپ نے روزہ رکھا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی روزہ رکھا، یہاں تک کہ آپ کراع غمیم
۱؎ پر پہنچے تو آپ سے عرض کیا گیا کہ لوگوں پر روزہ رکھنا گراں ہو رہا ہے اور لوگ آپ کے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔
(یعنی منتظر ہیں کہ آپ کچھ کریں) تو آپ نے عصر کے بعد ایک پیالہ پانی منگا کر پیا، لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے، تو ان میں سے بعض نے روزہ توڑ دیا اور بعض رکھے رہے۔ آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ
(اب بھی) روزے سے ہیں، آپ نے فرمایا:
”یہی لوگ نافرمان ہیں
“ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں کعب بن عاصم، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے
“،
۴- سفر میں روزہ رکھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے، یہاں تک بعض لوگوں کی رائے ہے کہ جب وہ سفر میں روزہ رکھ لے تو وہ سفر سے لوٹنے کے بعد پھر دوبارہ رکھے، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی سفر میں روزہ نہ رکھنے کو ترجیح دی ہے۔
۵- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر وہ طاقت پائے اور روزہ رکھے تو یہی مستحسن اور افضل ہے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس اور عبداللہ بن مبارک اسی کے قائل ہیں،
۶- شافعی کہتے ہیں: نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے قول
”سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں
“ اور جس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ روزے سے ہیں تو آپ کا یہ فرمانا کہ
”یہی لوگ نافرمان ہیں
“ ایسے شخص کے لیے ہے جس کا دل اللہ کی دی ہوئی رخصت اور اجازت کو قبول نہ کرے، لیکن جو لوگ سفر میں روزہ نہ رکھنے کو مباح سمجھتے ہوئے روزہ رکھے اور اس کی قوت بھی رکھتا ہو تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 710
اردو حاشہ:
1؎:
مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔
2؎:
کیونکہ انہوں نے اپنے آپ پر سختی کی اور روزہ افطار کرنے کے بارے میں انہیں جو رخصت دی گئی ہے اس رخصت کو قبول کرنے سے انہوں نے انکار کیا،
اور یہ اس شخص پر محمول کیا جائے گا جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر ہو رہا ہو،
رہا وہ شخص جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر نہ پہنچے تو وہ صوم رکھنے سے گنہگار نہ ہو گا،
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سفر کے دوران مشقت کی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 710
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 546
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ کی طرف رمضان میں نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کراع الغمیم (ایک جگہ کا نام) پہنچے۔ اس دن لوگوں نے بھی روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اس کو اتنا اونچا کیا کہ لوگوں نے دیکھ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پی لیا۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ بعض لوگوں نے روزہ رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” یہی لوگ نافرمان ہیں، یہی لوگ نافرمان ہیں۔ “ اور ایک حدیث کے الفاظ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ بیشک لوگوں کو روزہ نے مشقت میں ڈال دیا ہے اور اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ وہ آپ کے عمل کا انتظار کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا اور پی لیا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 546]
لغوی تشریح 546:
خَرَجَ عَامَ الفَتحِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد آٹھویں سال 10 رمضان المبارک کو مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوے۔
کُرَاعَ الغَمِیمِ کُرَاعَ کے ”کاف“ پر ضمہ ہے اور ”را“ مخفف ہے اور أَلغَمِیمِ میں ”غین“ پر فتحہ اور ”میم“ کے نیچے کسرہ ہے۔ عسفان سے آگے ایک وادی کا نام ہے۔
دَعَا بِقَدحٍ پیالہ طلب کیا۔ ٘فَرَفَعَہُ۔۔۔ الخ اسے ہاتھ پر رکھ کر بلند کیا تاکہ لوگ دیکھ لیں اور روزہ افطار کرلینے کا انہیں علم ہو جائے۔
أُولٰئِکَ العُصَاۃُ عُصَاۃ، عَاصٍ کی جمع ہے، یعنی نافرمان۔ انہیں نافرمان اس لیے کہا گیا کہ انہوں نے اپنے آپ پر سختی کی اور روزہ افطار کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کیطرف سے رخصت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ علامہ یمانی نے سبل السلام میں کہا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مسافر کو روزہ رکھنے اور چھوڑنے میں اختیار ہے اور ضرورت لاحق ہونے پر مسافر روزہ افطار بھی کر سکتا ہے، خواہ دن کا اکثر حصہ روزے کی حالت میں گزر چکا ہو۔ مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سفر کے دوران میں مشقت کی صورت میں روزہ افطار کرنا افضل ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 546
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2265
´اوپر والی جابر رضی الله عنہ کی حدیث میں مبہم راوی کے نام کا ذکر۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال رمضان میں مکہ کے لیے نکلے، تو آپ نے روزہ رکھا، یہاں تک کہ آپ کراع الغمیم پر پہنچے، تو لوگوں نے بھی روزہ رکھ لیا، تو آپ کو خبر ملی کہ لوگوں پر روزہ دشوار ہو گیا ہے، تو آپ نے عصر کے بعد پانی سے بھرا ہوا پیالہ منگایا، پھر پانی پیا، اور لوگ دیکھ رہے تھے، تو (آپ کو دیکھ کر) بعض لوگوں نے روزہ توڑ دیا، اور بعض رکھے رہ گئے، آپ کو یہ ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2265]
اردو حاشہ:
(1) ”یہ لوگ نافرمان ہیں۔“ اللہ کے رسولﷺ نے محسوس فرمایا کہ آج روزہ مشقت والا ہے اور مشقت والا روزہ سفر میں جائز نہیں، لہٰذا آپ نے افطار فرما لیا۔ اگرچہ آپ کو مشقت نہ تھی، تاکہ آپ کی وجہ سے کسی کو مشقت برداشت نہ کرنی پڑے اسی علت کے پیش نظر ان لوگوں کو بھی افطار کر لینا چاہیے تھا، جنہیں زیادہ مشقت نہ تھی، تاکہ ان کی وجہ سے دوسروں کو افطار میں جھجک محسوس نہ ہو۔ جس طرح اپنی مشقت کا لحاظ ضروری ہے، اسی طرح دوسروں کی مشقت کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ اس بنا پر آپ نے افطار فرمایا۔ جن حضرات نے اس اصول کا لحاظ نہ رکھا بلکہ آپ کے علانیہ افطار کے باوجود افطار نہ کیا، انہوں نے فرمانی کی۔
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح آپ کا فرمان واجب الاتباع ہے، اسی طرح آپ کا وہ فعل جو آپ اس لیے کریں کہ لوگ بھی اس کی اقتدا کریں، بعینہٖ واجب الاتباع ہے ورنہ یہ نافرمانی ہوگی۔
(3) رسول اللہﷺ سے بڑھ کر نیک اور متقی بننا زبردست غلطی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2265
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1326
1326- سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ہوا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ”کراع غمیم“ کے مقام پر پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن بلند کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہتھیلی پر رکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی سواری پر سواری پر سوار تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سے آگے والے افراد کو روک لیا یہاں تک کہ پیچھے والے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک آگئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس برتن میں سے پی لیا لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہے تھے اس کے بعد آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1326]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سفر میں روزے کا اختیار ہے، اگر کوئی چھوڑ نا چاہے تو چھوڑ سکتا ہے، بعض موقعوں پر سفر مشکل اور پر کٹھن ہوتا ہے، امیر سفر، سفر کی نوعیت کا لحاظ رکھتے ہوئے تمام مسافروں کو بھی روزہ افطار کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1326
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2610
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے سال رمضان میں مکہ کے سفر پر نکلے اور روزہ رکھتے رہے حتی کہ کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے اور لوگوں نے بھی روزے رکھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوا لیا اور اسے بلند کیا تاکہ لوگ بھی اس کو دیکھ لیں، پھر آپﷺ نے پی لیا بعد میں آپﷺ کو بتایا گیا کہ بعض لوگ روزے دار ہیں تو آپﷺ نے فرمایا: ”یہ لوگ نافرمان ہیں یہ لوگ نافرمان ہیں۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2610]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو دکھا کر جنگی مصلحت اور لوگوں کی سہولت وآسانی کے لیے پانی پیا تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں اور سب لوگوں کو عملاً پتہ چل جائے کہ سفر میں روزہ افطار بھی کیا جا سکتا ہے اس کے باوجود کچھ لوگوں نے آپﷺ کی اقتداء اور متابعت نہ کی اور آپﷺ کی خلاف ورزی کی اس لیے آپﷺ نے ان کو نافرمان قراردیا محض اس وجہ سے نافرمان نہیں کہا کہ انھوں نے روزہ رکھا روزہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اب تک رکھتے چلے آ رہے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2610