سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book on Zakat
1. باب مَا جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنْعِ الزَّكَاةِ مِنَ التَّشْدِيدِ
1. باب: زکاۃ نہ نکالنے پر وارد وعید کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related From The Messenger of Allah About The Severe Warning Against Withholding Zakat
حدیث نمبر: 617
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد بن السري التميمي الكوفي، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن المعرور بن سويد، عن ابي ذر، قال: جئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو جالس في ظل الكعبة، قال: فرآني مقبلا، فقال: " هم الاخسرون ورب الكعبة يوم القيامة " قال: فقلت: ما لي لعله انزل في شيء، قال: قلت: من هم فداك ابي وامي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هم الاكثرون إلا من قال: هكذا وهكذا وهكذا "، فحثا بين يديه وعن يمينه وعن شماله، ثم قال: " والذي نفسي بيده، لا يموت رجل فيدع إبلا او بقرا لم يؤد زكاتها، إلا جاءته يوم القيامة اعظم ما كانت واسمنه، تطؤه باخفافها وتنطحه بقرونها، كلما نفدت اخراها عادت عليه اولاها حتى يقضى بين الناس ". وفي الباب عن ابي هريرة مثله، وعن علي بن ابي طالب رضي الله عنه: " لعن مانع الصدقة " وعن قبيصة بن هلب، عن ابيه وجابر بن عبد الله، وعبد الله بن مسعود. قال ابو عيسى: حديث ابي ذر حديث حسن صحيح، واسم ابي ذر جندب بن السكن ويقال ابن جنادة حدثنا عبد الله بن منير عن عبيد الله بن موسى عن سفيان الثوري عن حكيم بن الديلم عن الضحاك بن مزاحم، قال: " الاكثرون اصحاب عشرة آلاف "، قال: وعبد الله بن منير مروزي رجل صالح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ التَّمِيمِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: فَرَآنِي مُقْبِلًا، فَقَالَ: " هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " قَالَ: فَقُلْتُ: مَا لِي لَعَلَّهُ أُنْزِلَ فِيَّ شَيْءٌ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هُمُ الْأَكْثَرُونَ إِلَّا مَنْ قَالَ: هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا "، فَحَثَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَمُوتُ رَجُلٌ فَيَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا، إِلَّا جَاءَتْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِثْلُهُ، وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: " لُعِنَ مَانِعُ الصَّدَقَةِ " وَعَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاسْمُ أَبِي ذَرٍّ جُنْدَبُ بْنُ السَّكَنِ وَيُقَالُ ابْنُ جُنَادَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَكِيمِ بْنِ الدَّيْلَمِ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ، قَالَ: " الْأَكْثَرُونَ أَصْحَابُ عَشَرَةِ آلَافٍ "، قَالَ: وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ مَرْوَزِيٌّ رَجُلٌ صَالِحٌ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپ نے مجھے آتا دیکھا تو فرمایا: رب کعبہ کی قسم! قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے ۲؎ میں نے اپنے جی میں کہا: شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔ میں نے عرض کیا: کون لوگ؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی لوگ جو بہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایسا ایسا کرے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھر کر اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور اپنے بائیں طرف اشارہ کیا، پھر فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو بھی آدمی اونٹ اور گائے چھوڑ کر مرا اور اس نے اس کی زکاۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن وہ اس سے زیادہ بھاری اور موٹے ہو کر آئیں گے جتنا وہ تھے ۳؎ اور اسے اپنی کھروں سے روندیں گے، اور اپنی سینگوں سے ماریں گے، جب ان کا آخری جانور بھی گزر چکے گا تو پھر پہلا لوٹا دیا جائے گا ۴؎ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی اسی کے مثل روایت ہے،
۳- علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ زکاۃ روک لینے والے پر لعنت کی گئی ہے ۵؎،
۴- (یہ حدیث) قبیصہ بن ہلب نے اپنے والد ہلب سے روایت کی ہے، نیز جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۵- ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں کہ «الأكثرون» سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس دس ہزار (درہم یا دینار) ہوں۔

وضاحت:
۱؎: زکاۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے تیسرا رکن ہے، اس کے لغوی معنی بڑھنے اور زیادہ ہونے کے ہیں، زکاۃ کو زکاۃ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ زکاۃ دینے والے کے مال کو بڑھاتی اور زیادہ کرتی ہے، اور ایک قول یہ ہے کہ اس کے معنی پاک کرنے کے ہیں اور زکاۃ کو زکاۃ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ مال کو پاک کرتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں سے پاک کرتی ہے، اس کی فرضیت کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے، اکثر علماء کا یہ قول ہے کہ ۲ ھ میں فرض ہوئی اور محققین علماء کا خیال ہے کہ یہ فرض تو مکہ میں ہی ہو گئی تھی مگر اس کے تفصیلی احکام مدینہ ۲ ھ میں نازل ہوئے۔
۲؎: یا تو آپ کسی فرشتے سے بات کر رہے تھے، یا کوئی خیال آیا تو آپ نے «هم الأخسرون» فرمایا۔
۳؎: یہ عذاب عالم حشر میں ہو گا، حساب و کتاب سے پہلے۔
۴؎: یعنی روندنے اور سینگ مارنے کا سلسلہ برابر چلتا رہے گا۔
۵؎: اس کی تخریج سعید بن منصور، بیہقی، خطیب اور ابن نجار نے کی ہے، لیکن روایت موضوع ہے اس میں ایک راوی محمد بن سعید بورمی ہے جو کذاب ہے، حدیثیں وضع کرتا تھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 43 (1460)، الأیمان والنذور 3 (6638)، سنن النسائی/الزکاة 2 (2442)، و11 (2458)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 2 (1785)، (تحفة الأشراف: 11981)، وأخرجہ صحیح مسلم/الزکاة 9 (32/94)، من طریق زید بن وہب عن أبي ذر بہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1785)

   صحيح البخاري6638جندب بن عبد اللههم الأخسرون ورب الكعبة هم الأخسرون ورب الكعبة قلت ما شأني أيرى في شيء ما شأني فجلست إليه وهو يقول فما استطعت أن أسكت وتغشاني ما شاء الله فقلت من هم بأبي أنت وأمي يا رسول الله قال الأكثرون أموالا إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا
   صحيح مسلم2300جندب بن عبد اللههم الأكثرون أموالا إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا من بين يديه ومن خلفه وعن يمينه وعن شماله وقليل ما هم ما من صاحب إبل ولا بقر ولا غنم لا يؤدي زكا تها إلا جاءت يوم القيامة أعظم ما كانت وأسمنه تنطحه بقرونها وتطؤه بأظلافها كلما نفدت أخراها عادت عليه أولاها حتى
   جامع الترمذي617جندب بن عبد اللهلا يموت رجل فيدع إبلا أو بقرا لم يؤد زكاتها إلا جاءته يوم القيامة أعظم ما كانت وأسمنه تطؤه بأخفافها وتنطحه بقرونها كلما نفدت أخراها عادت عليه أولاها حتى يقضى بين الناس
   سنن النسائى الصغرى2442جندب بن عبد اللههم الأخسرون ورب الكعبة فقلت ما لي لعلي أنزل في شيء قلت من هم فداك أبي وأمي قال الأكثرون أموالا إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا حتى بين يديه وعن يمينه وعن شماله لا يموت رجل فيدع إبلا أو بقرا لم يؤد زكاتها إلا جاءت يوم القيامة أعظم ما كان
   سنن النسائى الصغرى2458جندب بن عبد اللهما من صاحب إبل ولا بقر ولا غنم لا يؤدي زكا تها إلا جاءت يوم القيامة أعظم ما كانت وأسمنه تنطحه بقرونها وتطؤه بأخفافها كلما نفدت أخراها أعادت عليه أولاها حتى يقضى بين الناس
   سنن ابن ماجه1785جندب بن عبد اللهما من صاحب إبل ولا غنم ولا بقر لا يؤدي زكاتها إلا جاءت يوم القيامة أعظم ما كانت وأسمنه تنطحه بقرونها وتطؤه بأخفافها كلما نفدت أخراها عادت عليه أولاها حتى يقضى بين الناس

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 617 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 617  
اردو حاشہ:
1؎:
زکاۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے تیسرا رکن ہے،
اس کے لغوی معنی بڑھنے اور زیادہ ہونے کے ہیں،
زکاۃ کو زکاۃ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ زکاۃ دینے والے کے مال کو بڑھاتی اور زیادہ کرتی ہے،
اور ایک قول یہ ہے کہ اس کے معنی پاک کرنے کے ہیں اور زکاۃ کو زکاۃ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ مال کو پاک کرتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں سے پاک کرتی ہے،
اس کی فرضیت کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے،
اکثر علماء کا یہ قول ہے کہ 2ھ میں فرض ہوئی اور محققین علماء کا خیال ہے کہ یہ فرض تو مکہ میں ہی ہو گئی تھی مگر اس کے تفصیلی احکام مدینہ میں 2ھ میں نازل ہوئے۔

2؎:
یا توآپ کسی فرشتے سے بات کر رہے تھے،
یا کوئی خیال آیا تو آپ نے ((هُمْ الْأَخْسَرُونَ)) فرمایا۔

3؎:
یہ عذاب عالم حشر میں ہو گا،
حساب و کتاب سے پہلے۔

4؎:
یعنی روندنے اور سینگ مارنے کا سلسلہ برابر چلتا رہے گا۔

5؎:
اس کی تخریج سعید بن منصور،
بیہقی،
خطیب اور ابن نجار نے کی ہے،
لیکن روایت موضوع ہے اس میں ایک راوی محمد بن سعید بورمی ہے جو کذاب ہے،
حدیثیں وضع کرتا تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 617   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2442  
´زکاۃ نہ دینے والوں پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ خانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے، جب آپ نے ہمیں آتے دیکھا تو فرمایا: وہ بہت خسارے والے لوگ ہیں، رب کعبہ کی قسم! میں نے (اپنے جی میں) کہا: کیا بات ہے؟ شاید میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے، میں نے عرض کیا: کون لوگ ہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں؟ آپ نے فرمایا: بہت مال والے، مگر جو اس طرح کرے، اس طرح کرے یہاں تک کہ آپ اپنے سامنے، اپنے دائیں، ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2442]
اردو حاشہ:
(1) آگے، دائیں اور بائیں۔ یعنی ہر ضروری مصرف میں خرچ کیا، خواہ وہ فرض زکاۃ کے علاوہ بھی ہو۔
(2) قیامت کے دن صرف انسان ہی نہیں بلکہ ہر ذی روح چیز اٹھے گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2442   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1785  
´زکاۃ نہ دینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اونٹ، بکری اور گائے والا اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، تو اس کے جانور قیامت کے دن اس سے بہت بڑے اور موٹے بن کر آئیں گے جتنے وہ تھے، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گے اور کھروں سے روندیں گے، جب اخیر تک سب جا نور ایسا کر چکیں گے تو پھر باربار تمام جانور ایسا ہی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1785]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
زكاة نہ دینا بہت بڑا گناہ ہے۔

(2)
جانوروں میں بھی زکاۃ فرض ہے جس کی تفصیل اگلے ابواب میں آرہی ہے۔

(3)
کبیرہ گناہوں کے مرتکب افراد کو میدان حشر میں بھی گناہوں کی سزا ملے گی۔

(4)
بعض صورتوں میں ممکن ہے کہ محشر کی یہ سزا ہی اس کے لیے کافی ہو جائے اور جہنم کی سزا نہ بھگتنی پڑے۔
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
(اسے یہ عذاب ہوتا رہے گا)
اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے حتی کہ لوگوں کا فیصلہ ہو جائے گا پھر اسے جنت یا جہنم کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، حدیث: 987)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1785   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2300  
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا جبکہ آپﷺ کو کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما تھے تو آپﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: رب کعبہ کی قسم! وہی لوگ سب سے زیادہ ناکام اور نقصان اٹھانے والے ہیں میں آ کر آپ کے پاس بیٹھا ہی تھا اور میں نے قرارو ثبات حاصل نہیں کیا تھا کہ میں اٹھ کھڑا ہوا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان! وہ کون لوگ ہیں؟... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2300]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مالداروں کا یہ قوی ودینی فریضہ ہے کہ وہ دین کے کاموں میں اور اجتماعی وقومی مفادات کے موقعہ پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق خرج کریں،
وگرنہ وہ دنیا وآخرت میں ناکام اور نقصان سے دو چار ہوں گے۔
اوردنیا میں ہی لوگوں کی نفرت اور غیظ وغضب کا نشانہ بنیں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2300   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.