(مرفوع) حدثنا هشام بن يونس الكوفي، حدثنا المحاربي، عن الحجاج بن ارطاة، عن ابي إسحاق، عن هبيرة بن يريم، عن علي، وعن عمرو بن مرة، عن ابن ابي ليلى، عن معاذ بن جبل، قالا: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إذا اتى احدكم الصلاة والإمام على حال فليصنع كما يصنع الإمام ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعلم احدا اسنده، إلا ما روي من هذا الوجه، والعمل على هذا عند اهل العلم، قالوا: إذا جاء الرجل والإمام ساجد فليسجد ولا تجزئه تلك الركعة إذا فاته الركوع مع الإمام. واختار عبد الله بن المبارك ان يسجد مع الإمام، وذكر عن بعضهم، فقال: لعله لا يرفع راسه في تلك السجدة حتى يغفر له.(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُونُسَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَا: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الصَّلَاةَ وَالْإِمَامُ عَلَى حَالٍ فَلْيَصْنَعْ كَمَا يَصْنَعُ الْإِمَامُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ، إِلَّا مَا رُوِيَ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا جَاءَ الرَّجُلُ وَالْإِمَامُ سَاجِدٌ فَلْيَسْجُدْ وَلَا تُجْزِئُهُ تِلْكَ الرَّكْعَةُ إِذَا فَاتَهُ الرُّكُوعُ مَعَ الْإِمَامِ. وَاخْتَارَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَنْ يَسْجُدَ مَعَ الْإِمَامِ، وَذَكَرَ عَنْ بَعْضِهِمْ، فَقَالَ: لَعَلَّهُ لَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ فِي تِلْكَ السَّجْدَةِ حَتَّى يُغْفَرَ لَهُ.
علی اور معاذ بن جبل رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے آئے اور امام جس حالت میں ہو تو وہ وہی کرے جو امام کر رہا ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مسند کیا ہو سوائے اس کے جو اس طریق سے مروی ہے، ۲- اسی پر اہل علم کا عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب آدمی آئے اور امام سجدے میں ہو تو وہ بھی سجدہ کرے، لیکن جب امام کے ساتھ اس کا رکوع چھوٹ گیا ہو تو اس کی رکعت کافی نہ ہو گی۔ عبداللہ بن مبارک نے بھی اسی کو پسند کیا ہے کہ امام کے ساتھ سجدہ کرے، اور بعض لوگوں سے نقل کیا کہ شاید وہ اس سجدے سے اپنا سر اٹھاتا نہیں کہ بخش دیا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10306، 11345) (صحیح) (سند میں حجاج بن ارطاة کثیر الخطأ راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (522)، الصحيحة (1188)
قال الشيخ زبير على زئي: (591) إسناده ضعيف الحجاج بن أرطاة ضعيف مدلس (تقدم:527) وللحديث شواھد ضعيفة عند أبى داود (506) وغيره
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 340
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان` سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کے لئے آئے تو امام کو جس حالت میں پائے اسی میں امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔“ ترمذی نے اسے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 340»
تخریج: «أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما ذكر في الرجل يدرك الإمام وهو ساجد، حديث:591.* سنده ضعيف من أجل حجاج بن أرطاة، وللحديث شواهد ضعيفة عند أبي داود، الصلاة، حديث:506 وغيره.»
تشریح: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ امام کے ساتھ بعد میں شامل ہونے والا نمازی جس حالت میں امام کو پائے اسی حالت میں شامل ہو جائے۔ امام اگر رکوع میں ہے تو اسے بھی اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں چلے جانا چاہیے اور امام کو سجدے کی حالت میں پائے تو اس کو اللہ اکبر کہہ کر سجدے میں چلے جانا چاہیے اور اگر امام بیٹھا ہو تو مسبوق کو بھی اسی حالت میں بیٹھ جانا چاہیے۔ جامع ترمذی کی یہ روایت گو سنداً ضعیف ہے مگر دیگر صحیح احادیث سے اس مسئلے کی تائید ہوتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 340