اس سند سے بھی ابو الدرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح انہیں الفاظ کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ سفیان بن وکیع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے انہوں نے عبداللہ بن وہب سے روایت کی ہے ۱؎، ۲- اس باب میں علی، ابن عباس، ابوہریرہ، ابن مسعود، زید بن ثابت اور عمرو بن العاص رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- ابو الدرداء کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف سعید بن ابی ہلال کی روایت سے جانتے ہیں، اور سعید نے عمر دمشقی سے روایت کی ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی عبداللہ بن عبدالرحمٰن کی حدیث سفیان بن وکیع کی حدیث کے مقابلے میں زیادہ راجح ہے کیونکہ اس کا ضعف سفیان کی حدیث کے ضعف سے ہلکا ہے سفیان بن وکیع متکلم فیہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف) (سند میں عمر مجہول اور عمر کے شیخ مبہم راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1055) // ضعيف ابن ماجة (217) //
قال الشيخ زبير على زئي: (568،569) إسناده ضعيف /جه 1055 عمر الدمشقي: مجھول (تق:4886) وبينه وبين أم الدرداء رجل مجھول، انظر الحديث الاتي:569
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 569
اردو حاشہ: 1؎: یعنی عبداللہ بن عبدالرحمن کی حدیث سفیان بن وکیع کی حدیث کے مقابلے میں زیادہ راجح ہے کیو نکہ اس کا ضعف سفیان کی حدیث کے ضعف سے ہلکاہے سفیان بن وکیع متکلم فیہ ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 569