(مرفوع) حدثنا عباد بن يعقوب الكوفي، حدثنا محمد بن الفضل بن عطية، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استوى على المنبر استقبلناه بوجوهنا ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن عمر، وحديث منصور لا نعرفه إلا من حديث محمد بن الفضل بن عطية، ومحمد بن الفضل بن عطية ضعيف ذاهب الحديث عند اصحابنا، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم يستحبون استقبال الإمام إذا خطب، وهو قول سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق. قال ابو عيسى: ولا يصح في هذا الباب عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَوَى عَلَى الْمِنْبَرِ اسْتَقْبَلْنَاهُ بِوُجُوهِنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَحَدِيثُ مَنْصُورٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ ضَعِيفٌ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَسْتَحِبُّونَ اسْتِقْبَالَ الْإِمَامِ إِذَا خَطَبَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَاب عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر بیٹھتے تو ہم اپنا منہ آپ کی طرف کر لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- منصور کی حدیث کو ہم صرف محمد بن فضل بن عطیہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- محمد بن فضل بن عطیہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ضعیف اور ذاہب الحدیث ہیں، ۳- اس باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی کوئی چیز صحیح نہیں ہے ۱؎، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ خطبے کے وقت امام کی طرف رخ کرنا مستحب سمجھتے ہیں اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ۵- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: سند کے لحاظ سے اس باب میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے لیکن متعدد احادیث وآثار سے اس مضمون کو تقویت مل جاتی ہے (دیکھئیے الصحیحۃ رقم۲۰۸۰) عام مساجد میں یہ چیز تو بہت آسان ہے لیکن خانہ کعبہ میں مشکل ہے، تو وہاں یہ بات معاف ہو گی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9457) (صحیح) (یہ سند سخت ضعیف ہے، اس لیے کہ اس میں راوی محمد بن فضل بن عطیہ کی لوگوں نے تکذیب تک کی ہے، لیکن براء بن عازب اور ابن عمر، انس اور ابو سعید خدری وغیرہ سے مروی شواہد کی بنا پر صحابہ کا یہ تعامل صحیح اور ثابت ہے تفصیل کے لیے دیکھئے: الصحیحة 2080)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2080)
قال الشيخ زبير على زئي: (509) ضعيف محمد بن الفضل بن عطية:كذبوه (تق:6225) وللحديث شواھد ضعيفة عند ابن ماجه (1136) وغيره فالحديث ضعيف /وذكر البخاري فى صحيحه (قبل ح 921) موقوفاً عن عمرو أنس رضي الله عنهما وھو الصواب
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 509
اردو حاشہ: 1؎: سند کے لحاظ سے اس باب میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے لیکن متعدد احادیث و آثار سے اس مضمون کو تقویت مل جاتی ہے (دیکھئے الصحیحۃ رقم2080) عام مساجد میں یہ چیز تو بہت آسان ہے لیکن خانہ کعبہ میں مشکل ہے، تو وہاں یہ بات معاف ہو گی۔
نوٹ: (یہ سند سخت ضعیف ہے، اس لیے کہ اس میں راوی محمد بن فضل بن عطیہ کی لوگوں نے تکذیب تک کی ہے، لیکن براء بن عازب اور ابن عمر، انس اور ابو سعید خدری وغیرہ سے مروی شواہد کی بنا پر صحابہ کا یہ تعامل صحیح اور ثابت ہے تفصیل کے لیے دیکھئے: الصحیحۃ 2080)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 509
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 377
´نماز جمعہ کا بیان` سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر کھڑے ہو جاتے تو ہم اپنے رخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موڑ لیتے۔ اسے ترمذی نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اس کا شاہد ابن خزیمہ میں موجود ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 377»
تخریج: «أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء في استقبال الإمام إذا خطب، حديث:509 وسنده ضعيف، وللحديث شواهد ضعيفة، وحديث البراء رواه ابن خزيمة:لم أجده.»
تشریح: 1. اس حدیث کی رو سے سامعین کو اپنا رخ خطیب کی طرف کرنا چاہیے۔ قبلے کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں۔ اس مسئلے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ اس پر اجماع ہے۔ (سبل السلام) 2.اس حدیث کے ضعف کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں محمد بن فضل بن عطیہ ایسا راوی ہے جسے متروک الحدیث قرار دیا گیا ہے مگر خود مصنف نے ذکر کیا ہے کہ اس کا شاہد موجود ہے اور اس پر اجماع بھی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 377