سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: صلاۃ وترکے ابواب
The Book on Al-Witr
13. باب مَا جَاءَ لاَ وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ
13. باب: ایک رات میں دو بار وتر نہیں۔
Chapter: What Has Been Related About 'There Are No Two Witr In One Night'
حدیث نمبر: 471
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا حماد بن مسعدة، عن ميمون بن موسى المرئي، عن الحسن، عن امه، عن ام سلمة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يصلي بعد الوتر ركعتين ". قال ابو عيسى: وقد روي نحو هذا عن ابي امامة، وعائشة وغير واحد، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مُوسَى الْمَرَئِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُصَلِّي بَعْدَ الْوِتْرِ رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، وَعَائِشَةَ وَغَيْرِ وَاحِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابوامامہ، عائشہ رضی الله عنہما اور دیگر کئی لوگوں سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح مروی ہے۔

وضاحت:
۱؎: نووی کے بقول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بیان جواز کے لیے تھا، آپ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے، نہ کر سکتے تھے کہ آپ نے خود فرمایا تھا: وتر کو رات کی نماز (تہجد) میں سب سے اخیر میں کر دو تو آپ خود اس کی خلاف ورزی کیسے کر سکتے تھے، یا پھر یہ مانیے کہ یہ آپ کے ساتھ خاص تھا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء میں اس پر تعامل نہیں پایا گیا۔ واللہ اعلم۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 125 (1195)، (تحفة الأشراف: 18255) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1195)

   جامع الترمذي471هند بنت حذيفةيصلي بعد الوتر ركعتين
   سنن ابن ماجه1195هند بنت حذيفةيصلي بعد الوتر ركعتين خفيفتين وهو جالس

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 471 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 471  
اردو حاشہ:
1؎:
نووی کے بقول نبی اکرم ﷺ کا وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا بیان جواز کے لیے تھا،
آپ ہمیشہ ایسا نہیں کرتے تھے،
نہ کر سکتے تھے کہ آپ نے خود فرمایا تھا:
وتر کو رات کی نماز (تہجد) میں سب سے اخیر میں کردو تو آپ خود اس کی خلاف ورزی کیسے کرسکتے تھے،
یا پھر یہ مانیے کہ یہ آپ کے ساتھ خاص تھا،
اور شاید یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء میں اس پر تعامل نہیں پایا گیا۔
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 471   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.