(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو بكر بن عياش، حدثنا ابو إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، عن علي، قال: الوتر ليس بحتم كصلاتكم المكتوبة، ولكن سن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: " إن الله وتر يحب الوتر فاوتروا يا اهل القرآن " قال: وفي الباب عن ابن عمر , وابن مسعود , وابن عباس، قال ابو عيسى: حديث علي حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَصَلَاتِكُمُ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ مَسْعُودٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر (طاق)۲؎ ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن! ۳؎ تم وتر پڑھا کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، ابن مسعود اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔
۲؎: اللہ وتر (طاق) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی ثانی نہیں، صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔
۳؎: صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قرآن کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے، نہ کہ صرف قرآن کا، جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے، حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 336 (1416)، (الشطر الأخیر فحسب)، سنن النسائی/قیام اللیل 27 (1677)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 114 (1169)، (تحفة الأشراف: 10135)، مسند احمد (1/86، 98، 100، 107، 115، 144، 145، 148)، سنن الدارمی/الصلاة 208 (1621) (صحیح) (سند میں ”ابواسحاق سبیعی مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1169)
قال الشيخ زبير على زئي: (453۔454) إسناد ضعيف /د 1416، ن 1676، جه 1169 أبو إسحاق عنعن (تقديم:107) وروى أحمد (107/1 ح 842) بسند حسن عن على رضى الله عنه قال: ”ليس الوتر بحتم كالصلاة ولكنه سنة فلا تدعوه۔۔۔۔ وقد أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم“ وھو يغني عنه
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 453
اردو حاشہ: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ وتر فرض اور لازم نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔
2؎: اللہ وتر (طاق) ہے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کو ئی ثانی نہیں، صلاة الوتر کو بھی اسی لیے وتر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات وغیرہ عدد میں ادا کی جاتی ہے اسے جفت اعداد میں پڑھنا جائز نہیں۔
3؎: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم ﷺ نے اہل قرآن کہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے، اہل قرآن کا مطلب ہے شریعت اسلامیہ کے متبع و پیروکار اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعے کا نام ہے، نہ کہ صرف قرآن کا، جیسا کہ آج کل قرآن کے ماننے کے دعویداروں کا ایک گروہ کہتا ہے، یہ گروہ منکرین حدیث کا ہے، حدیث کا منکر ہے اس لیے حقیقت میں وہ قرآن کا بھی منکر ہے کیونکہ حدیث کے بغیر نہ تو قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ: (سند میں ”ابو اسحاق سبیعی“ مختلط ہیں، نیز عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 453
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1676
´وتر پڑھنے کے حکم کا بیان۔` علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھی، پھر فرمایا: ”اے اہل قرآن! وتر پڑھو ۱؎ کیونکہ اللہ تعالیٰ وتر ہے، اور وتر کو محبوب رکھتا ہے“۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1676]
1676۔ اردو حاشیہ: ➊ مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اور یہی رائے اقرب الی الصلوۃ معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد: 2 ؍413، وصحیح سنن ابی داود (مفصل) للالبانی: 5؍159، رقم الحدیث: 1274، وذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی 18؍28۔ 33) ➋ وتر عربی میں طاق عدد کو کہتے ہیں جو دو پر تقسیم نہ ہو۔ اصطلاح میں رات کی نماز کو کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے بارے میں حکم ہے کہ اسے مجموعی طور پر طاق عدد میں پڑھا جائے۔ تین یا پانچ یا سات یا نو یا گیارہ۔ ➌ رات کی نماز فرض نہیں بلکہ نفل ہے، اس لیے وتر فرض ہے نہ واجب بلکہ نفل مؤکد ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بھی وتر پڑھ لیا کرتے تھے جبکہ فرائض یا واجبات کی ادائیگی کے لیے نیچے اترجاتے، اس سے بھی معلوم ہوا کہ وتر واجب نہیں۔ باقی رہا حکم تو حکم ہر جگہ وجوب کے لیے نہیں ہوتا۔ بعض جگہ تاکید یا استحباب کے لیے بھی ہوتا ہے بلکہ جواز کے لیے بھی آجاتا ہے، مثلاً: (واذا حللتم فاصطادوا)(المائدہ5: 2)”جب تم احرام کھول لو تو شکار کرو۔“ یعنی شکار کرسکتے ہو۔ کیونکہ کسی فقیہ اور محدث کے نزدیک بھی احرام کے بعد شکار کرنا ضروری بلکہ مستحب بھی نہیں، نیز اسی حدیث کے آخری الفاظ ”پسند فرمات ہے“ بھی وتر کے استحباب وتاکید پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ ➍ ”اے قرآن والو!“ مراد مسلمان ہیں کہ ان کی کتاب قرآن ہے۔ یا قرآن کے حفاظ مراد ہیں، یعنی حفاظ کو رات کی نماز پڑھنی چاہیے کیونکہ یہ حفظ قرآن کا حق ہے، ورنہ حفظ کا اور کیا فائدہ ہے؟ نیز اس طرح حفظ قائم رہے گا ورنہ بھول جانے کا خدشہ ہے۔ اس صورت میں وتر سے مراد نماز تہجد ہو گی جو تعداد میں زیادہ اور قرأت میں طویل ہوتی ہے اور یہ حفاظ کے لائق ہے۔ باقی رہے کم از کم وتر تو وہ سب مسلمانوں کے لیے مؤکد ہیں۔ ان کی تعداد تین یا ایک ہے۔ ➎ ”اللہ تعالیٰ وتر (ایک) ہے“ یعنی یکتا ہے جس میں کسی لحاظ سے تجزی، دوئی یا شراکت نہیں، نہ وہ قابل تقسیم ہے، اس لیے رات کی نماز کو زیادہ محبوب رکھتا ہے کیونکہ وہ بھی تو دوئی کو قبول نہیں کرتی۔ ➏ اللہ تعالیٰ کی محبت کو بعض لوگوں نے ثواب کے معنی میں لیا ہے مگر اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ محبت اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات انسانوں یا کسی بھی مخلوق کی صفات جیسی نہیں کہ ان کے مشابہ قرار دیا جا سکے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرح بے مثال ہیں۔ ➐ وتر پڑھنے والے سے اللہ تعالیٰ خصوصی محبت فرماتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1676
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 294
´نفل نماز کا بیان` سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وتر فرضوں کی طرح حتمی اور لازمی نہیں ہے بلکہ سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے۔ اسے ترمذی اور نسائی نے بیان کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 294»
تخریج: «أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء أن الوتر ليس بحتم، حديث:453، والنسائي، قيام الليل، حديث:1676، والحاكم:1 /300، ووافقه الذهبي، أبوسحاق مدلس وعنعن.»
تشریح: یہ حدیث جمہور علماء کی دلیل ہے جو وتر کے وجوب کے قائل نہیں۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ اس کی سند میں عاصم بن ضمرہ کوفی متکلم فیہ ہے مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں اعدل الاقوال ذکر کیا ہے کہ وہ صدوق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں انھوں نے امام ترمذی رحمہ اللہ اور حاکم رحمہ اللہ کی تحسین و تصحیح نقل کر کے کوئی کلام نہیں کیا۔ البتہ ہمارے فاضل محقق نے اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘ نیز مسند احمد میں بھی اس کے شواہد ہیں جنھیں الموسوعۃ الحدیثیہ والوں نے قوی قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ / ۸۱) لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 294
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 302
´نفل نماز کا بیان` سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے قرآن والو! وتر پڑھا کرو۔ اللہ خود بھی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔“ اسے پانچوں یعنی احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 302»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب استحباب الوتر، حديث:1416، والترمذي، الوتر، حديث:453، والنسائي، قيام الليل، حديث:1676، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1169، وأحمد: 1 /148، وابن خزيمة: 2 /137، حديث:1067، وأبو اسحاق عنعن.»
تشریح: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بناپر صحیح اور حسن قرار دیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر قابل حجت اور قابل عمل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ /۴۱۳‘ وصحیح أبوداود (مفصل) للألباني‘ حدیث:۱۲۷۴) بنابریں اس حدیث سے حفاظ قرآن کو ترغیب ہے کہ وہ قیام اللیل کا اہتمام کریں کیونکہ اس سے قرآن یاد رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 302
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1169
´وتر کا بیان۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر واجب نہیں ہے، اور نہ وہ فرض نماز کی طرح ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھی پھر فرمایا: ”اے قرآن والو! وتر پڑھو، اس لیے کہ اللہ طاق ہے، طاق (عدد) کو پسند فرماتا ہے ۱؎۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1169]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے محقق نے سنداً ضعیف جبکہ دیگر محققین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ اورانہی محققین کی رائے اَقْرَبُ إِلَی الصَّوّاب معلوم ہوتی ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد بن حنبل، 413/2 وصحیح ابوداؤد (مفصل) حدیث: 1274)
(2) وتر سے پوری نماز تہجد بھی مراد ہوسکتی ہے۔ اور تہجد کے آخر میں پڑھی جانے والی چند رکعتیں بھی۔ احادیث میں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس حدیث میں اگر نماز تہجد مراد ہو تو وہ نفلی نماز ہے۔ تاہم اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔ اوراگر تہجد کی آخری رکعتیں مراد ہوں۔ جو عرف عام میں وتر کہلاتی ہیں۔ تو انھیں سنت مؤکدہ قراردیا جا سکتا ہے۔
(3) وتر کے لفظی معنی طاق ہیں۔ یعنی وہ عدد جو دو پر تقسیم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ایک ہے۔ اور ایک کا عدد سب سے پہلا طاق عدد ہے نماز وتر یا نماز تہجد مع وتر بھی طاق عدد میں ہوتی ہے۔ اس لئے بھی وہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے۔
(4) جو عمل اللہ کو پسند ہو وہ مومن کو بھی پسند ہوتا ہے۔ اس لئے اس پر اہتمام سے عمل کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1169