سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
27. باب مَنَاقِبِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضى الله عنه
27. باب: سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3756
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن يحيى بن سعيد، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، ان عائشة، قالت: سهر رسول الله صلى الله عليه وسلم مقدمه المدينة ليلة، قال: " ليت رجلا صالحا يحرسني الليلة "، قالت: فبينما نحن كذلك إذ سمعنا خشخشة السلاح، فقال: " من هذا؟ " , فقال: سعد بن ابي وقاص، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما جاء بك؟ " , فقال سعد: وقع في نفسي خوف على رسول الله صلى الله عليه وسلم فجئت احرسه، فدعا له رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم نام. قال: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَهِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْدَمَهُ الْمَدِينَةَ لَيْلَةً، قَالَ: " لَيْتَ رَجُلًا صَالِحًا يَحْرُسُنِيَ اللَّيْلَةَ "، قَالَتْ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ سَمِعْنَا خَشْخَشَةَ السِّلَاحِ، فَقَالَ: " مَنْ هَذَا؟ " , فَقَالَ: سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا جَاءَ بِكَ؟ " , فَقَالَ سَعْدٌ: وَقَعَ فِي نَفْسِي خَوْفٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ أَحْرُسُهُ، فَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَامَ. قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی غزوہ سے مدینہ واپس آنے پر ایک رات نیند نہیں آئی، تو آپ نے فرمایا: کاش کوئی مرد صالح ہوتا جو آج رات میری نگہبانی کرتا، ہم اسی خیال میں تھے کہ ہم نے ہتھیاروں کے کھنکھناہٹ کی آواز سنی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ آنے والے نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم کیوں آئے ہو؟ تو سعد رضی الله عنہ نے کہا: میرے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس لیے میں آپ کی نگہبانی کے لیے آیا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی پھر سو گئے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

وضاحت:
۱؎: یعنی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «رجل صالح» کے مصداق سعد رضی الله عنہ قرار پائے، یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو «رجل صالح» قرار دیں ہیں، «رضی الله عنہ وأرضاہ» ۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 70 (2885)، والتمنی 4 (7231)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 5 (2410) (تحفة الأشراف: 16225) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري7231عائشة بنت عبد اللهليت رجلا صالحا من أصحابي يحرسني الليلة إذ سمعنا صوت السلاح قال من هذا قال سعد يا رسول الله جئت أحرسك فنام النبي حتى سمعنا غطيطه ألا ليت شعري هل أبيتن ليلة بواد وحولي إذخر وجليل فأخبرت النبي
   صحيح البخاري2885عائشة بنت عبد اللهليت رجلا من أصحابي صالحا يحرسني الليلة إذ سمعنا صوت سلاح فقال من هذا فقال أنا سعد بن أبي وقاص جئت لأحرسك ونام النبي
   صحيح مسلم6230عائشة بنت عبد اللهليت رجلا صالحا من أصحابي يحرسني الليلة قالت وسمعنا صوت السلاح فقال رسول الله من هذا قال سعد بن أبي وقاص يا رسول الله جئت أحرسك قالت عائشة فنام رسول الله حتى سمعت غطيطه
   صحيح مسلم6231عائشة بنت عبد اللهليت رجلا صالحا من أصحابي يحرسني الليلة قالت فبينا نحن كذلك سمعنا خشخشة سلاح فقال من هذا قال سعد بن أبي وقاص فقال له رسول الله ما جاء بك قال وقع في نفسي خوف على رسول الله فجئت أحرسه فدعا له رسول الله
   جامع الترمذي3756عائشة بنت عبد اللهليت رجلا صالحا يحرسني الليلة قالت فبينما نحن كذلك إذ سمعنا خشخشة السلاح فقال من هذا فقال سعد بن أبي وقاص فقال له رسول الله ما جاء بك فقال سعد وقع في نفسي خوف على رسول الله فجئت أحرسه فدعا له رسول الله

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3756 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3756  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی: اللہ کے رسول اکرمﷺ کے فرمان (رَجُلٌ صَالِحٌ) کے مصداق سعد رضی اللہ عنہ قرار پائے،
یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہوئی کہ رسول اکرمﷺ کسی کو (رَجُلٌ صَالِحٌ) قرار دیا،
 (رَضِیَ اللہُ عَنْهُ وَأَرْضَاهُ)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3756   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6230  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگتے رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کاش! میرے ساتھیوں میں سے کوئی صالح شخص آج پہرہ دے۔"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:اچانک ہم نے ہتھیاروں کی آوازسنی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ کون ہے؟حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ کا پہرہ دینے کے لئے آیا ہوں۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتیٰ کہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6230]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أرق:
جاگتے یا بیدار رہے۔
(2)
يحرسني:
میرا پہرہ دے،
حفاظت کرے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو حزم و احتیاط اختیار کرنا چاہیے اور دشمن سے چوکنا رہنا چاہیے اور اس کے لیے اسباب و وسائل اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے اور خطرات کی صورت میں اپنے حکمرانوں کی حفاظت کا لوگوں کو بندوبست کرنا چاہیے اور اس سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی آپ سے محبت و عقیدت اور آپ کی حفاظت کا جذبہ بھی معلوم ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ آپ کے فرمان رجلا صالحا کا مصداق بنے ہیں،
لیکن یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کرنے کا ابھی تک مژدہ نہیں سنایا تھا،
جب یہ آیت اتری کہ اللہ آپ کی لوگوں سے حفاظت فرمائے گا تو پھر آپ کو کسی ظاہری پہرہ داری کی ضرورت نہ رہی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6230   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6231  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آنے پر ایک رات جاگتے رہے،چنانچہ فرمایا:"اےکاش! میرے اصحاب میں سے کوئی نیک بخت رات بھر میری حفاظت کرے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ کہتی ہیں کہ اتنے میں ہمیں ہتھیاروں کی آواز معلوم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے؟ آواز آئی کہ یا رسول اللہ! سعد بن ابی وقاص ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کیوں آئے؟ وہ بولے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے نفس میں ڈر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6231]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
خشخشة السلاح:
ہتھیاروں کے باہمی ٹکراؤ کی آواز،
ان سے پیدا ہونے والی جھنکار۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6231   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2885  
2885. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک رات بیدار رہے جب مدینہ طیبہ پہنچے تو فرمایا: کاش!میرے صحابہ میں سے کوئی نیک مراد آج رات ہماری پاسبانی کرے۔ پھر ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ نے فرمایا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں اور آپ کی پاسبانی کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ محو استراحت ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2885]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے خراٹے کی آواز سنی۔
ترمذی نے حضرت عائشہ ؓ سے نکالا نبی اکرمﷺ چوکی پہرہ رکھتے تھے‘ جب یہ آیت اتری ﴿وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ (المائدة: 67) (اللہ آپؐ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا)
تو آپ ﷺ نے چوکی پہرہ اٹھا دیا۔
حاکم اور ابن ماجہ نے مرفوعاً نکالا۔
جہاد میں ایک رات چوکی پہرہ دینا ہزار راتوں کی عبادت اور ہزار دنوں کے روزہ سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2885   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7231  
7231. حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبیﷺ کو ایک رات نیند نہ آئی تو آپ نے فرمایا: کاش! میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرے ہاں پہرہ دے۔ اس دوران میں اچانک ہم نے ہتھیاروں کی چھنکار سنی۔ آپﷺ نے پوچھا:کون صاحب ہیں؟ کہا گیا: اللہ کے رسول! میں سعد بن ابی وقاص ہوں۔ آپ کی حفاظت کے لیے حاضر ہوا ہوں، پھر نبیﷺ سو گئے حتیٰ کہ ہم نے آپ کے خراٹے بھرنے کی آواز سنی۔ ابو عبد اللہ(امام بخاری) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: بلالؓ (جب نئے نئے مدینہ طیبہ آئے تو بخار کی حالت میں انہوں) نے کہا: کاش! میں ایسے میدان میں رات گزاروں جہاں میرے ارد گرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے نبیﷺ کو اس امر کی خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7231]
حدیث حاشیہ:
مولانا وحید الزماں نے اس شعر کا ترجمہ شعر میں کیوں کیا ہے کاش میں مکہ کی پاؤں ایک رات گرد میرے ہوں جلیل اذ خر نبات یہ پہرہ کا ذکر مدینہ میں شروع شروع آتے وقت کا ہے کیونکہ دشمنوں کا ہر طرف ہجوم تھا۔
آپ کی دعا سعد رضی اللہ عنہ کے حق میں قبول ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7231   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2885  
2885. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک رات بیدار رہے جب مدینہ طیبہ پہنچے تو فرمایا: کاش!میرے صحابہ میں سے کوئی نیک مراد آج رات ہماری پاسبانی کرے۔ پھر ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ نے فرمایا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں اور آپ کی پاسبانی کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ محو استراحت ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2885]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے:
رسول اللہ ﷺ اس رات آرام سے سوئے حتی کہ ہم نے آپ کےخراٹوں کی آواز سنی۔
(صحیح البخاري، التمني، حدیث 7231)

ظاہر روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مدینہ آنے سے پہلے کا ہے، حالانکہ اس وقت آپ کے پاس عائشہ صدیقہ ؓ نہیں تھیں اور نہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہی تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیداری مدینہ طیبہ میں آنے کے بعد ایک رات پیش آئی جیساکہ ایک روایت میں ہے:
جب آپ بیدار ہوئے توحضرت عائشہ ؓ آپ کے پاس تھیں۔
(مسند أحمد 141/6)
ترمذی ؒ کی روایت میں ہے:
صحابہ کرام ؓ آپ کا پہرہ دیتے تھے،جب یہ آیت اتری:
﴿وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔
(المآئدة: 67/5)
تو آپ نے پہرہ ختم کرادیا۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث 3046)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمن سے ہروقت محتاط رہنا چاہیے، نیز لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سربراہ کی حفاظت کریں تا کہ کوئی اچانک اسے اذیت نہ دے سکیں۔
یہ بھی معلوم ہواکہ اسباب کی فراہمی توکل کے منافی نہیں کیونکہ توکل دل کا فعل ہے اور اسباب و ذرائع کا استعمال اعضاء وجوارح سے متعلق ہے۔
(فتح الباري: 101/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2885   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7231  
7231. حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبیﷺ کو ایک رات نیند نہ آئی تو آپ نے فرمایا: کاش! میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرے ہاں پہرہ دے۔ اس دوران میں اچانک ہم نے ہتھیاروں کی چھنکار سنی۔ آپﷺ نے پوچھا:کون صاحب ہیں؟ کہا گیا: اللہ کے رسول! میں سعد بن ابی وقاص ہوں۔ آپ کی حفاظت کے لیے حاضر ہوا ہوں، پھر نبیﷺ سو گئے حتیٰ کہ ہم نے آپ کے خراٹے بھرنے کی آواز سنی۔ ابو عبد اللہ(امام بخاری) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: بلالؓ (جب نئے نئے مدینہ طیبہ آئے تو بخار کی حالت میں انہوں) نے کہا: کاش! میں ایسے میدان میں رات گزاروں جہاں میرے ارد گرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے نبیﷺ کو اس امر کی خبر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7231]
حدیث حاشیہ:

مدینہ طیبہ میں دشمنانِ اسلام کا ہر طرف ہجوم تھا، اس لیے حفاظت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دیا جاتا تھا کہ کوئی دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچائے۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے پہرا دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
اور اللہ تعالیٰ آپ کولوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
(المآئدة: 5/67)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تقریباً سترہ مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا۔
اس آیت کے نزول کے بعد پہرا اٹھا دیا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نبوت 23 سال ہے، ابتدائی تین سال تو انتہائی خفیہ تبلیغ کے ہیں، باقی بیس سال کے عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سترہ بار قاتلانہ حملے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینے کی سازشیں تیار ہوئیں، ان میں سے 9 حملے تو قریش مکہ کی طرف سے ہوئے تین یہود سے، تین بدوی قبائل سے، ایک منافقین سے اور ایک شاہ ایران خسرو پرویز سے اورغالباً اس دنیا میں کسی بھی دوسرے شخص پر اتنی بار قاتلانہ حملے نہیں ہوئے اور ہر باراللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع کرکے یا مدد کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں سے بچا کر اپنا وعدہ پورا کردیا۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ بدر، غزوہ اُحد، غزوہ خندق، خیبر سے واپسی کے وقت، وادی قریٰ، عمرہ قضا اور غزوہ حنین میں باقاعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دیا گیا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت غزوہ حنین کے بعد نازل ہوئی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرا دینے والوں میں سے تھے۔
جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو پہراختم کردیا گیا اورحضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے ہیں۔
(فتح الباري: 270/13)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ حرف لَيْتَ تمنی ہے۔
اس کا تعلق اکثر وبیشتر ناممکنات میں سے ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار ممکنات کے لیے بھی استعمال ہوتاہے، چنانچہ مذکورہ احادیث میں پہرا دینا اورمخصوص وادی میں رات گزارنا ممکنات میں سے ہے۔
مؤخر الذکر کی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمنا کی تھی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہرے سے متعلق تمنا پوری کردی گئی تھی۔
(فتح الباري: 269/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7231   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.