الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
161. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ التَّثَاؤُبِ فِي الصَّلاَةِ
161. باب: نماز میں جمائی لینے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked to Yawn During Salat
حدیث نمبر: 370
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " التثاؤب في الصلاة من الشيطان، فإذا تثاءب احدكم فليكظم ما استطاع " قال: وفي الباب عن ابي سعيد الخدري وجد عدي بن ثابت، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، وقد كره قوم من اهل العلم التثاؤب في الصلاة، قال إبراهيم: إني لارد التثاؤب بالتنحنح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " التَّثَاؤُبُ فِي الصَّلَاةِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَجَدِّ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ التَّثَاؤُبَ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: إِنِّي لَأَرُدُّ التَّثَاؤُبَ بِالتَّنَحْنُحِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز میں جمائی آنا شیطان کی طرف سے ہے، جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اسے روکے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری اور عدی بن ثابت کے دادا (عبید بن عازب) سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے نماز میں جمائی لینے کو مکروہ کہا ہے، ابراہیم کہتے ہیں کہ میں جمائی کو کھنکھار سے لوٹا دیتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 11 (3289)، والأدب 125 (6223)، و128 (6226)، صحیح مسلم/الزہد 9 (2994)، (تحفة الأشراف: 13962)، وکذا (13019)، مسند احمد (2/265، 397، 428، 517)، ویأتي عند المؤلف في الأدب برقم: 2746) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور اگر روکنا ممکن نہ ہو تو منہ پر ہاتھ رکھے، کہتے ہیں: ہاتھ رکھنا بھی اسے روکنے کی کوشش ہے، جس کا حکم حدیث میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري3289عبد الرحمن بن صخرالتثاؤب من الشيطان فإذا تثاءب أحدكم فليرده ما استطاع فإن أحدكم إذا قال ها ضحك الشيطان
   صحيح مسلم7490عبد الرحمن بن صخرالتثاؤب من الشيطان فإذا تثاءب أحدكم فليكظم ما استطاع
   جامع الترمذي370عبد الرحمن بن صخرالتثاؤب في الصلاة من الشيطان فإذا تثاءب أحدكم فليكظم ما استطاع
   سنن ابن ماجه968عبد الرحمن بن صخرإذا تثاءب أحدكم فليضع يده على فيه ولا يعوي فإن الشيطان يضحك منه
   بلوغ المرام194عبد الرحمن بن صخرالتثاؤب من الشيطان،‏‏‏‏ فإذا تثاءب احدكم فليكظم ما استطاع
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 370 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 370  
اردو حاشہ:
1؎:
اور اگر روکنا ممکن نہ ہو تو منہ پر ہاتھ رکھے،
کہتے ہیں:
ہاتھ رکھنا بھی اسے روکنے کی کوشش ہے،
جس کا حکم حدیث میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 370   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 194  
´جمائی کا آنا شیطانی حرکت ہے`
«. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: التثاؤب من الشيطان،‏‏‏‏ فإذا تثاءب احدكم فليكظم ما استطاع . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمائی کا آنا شیطانی حرکت ہے۔ تم سے اگر کسی کو جمائی آ جائے تو حتیٰ الوسع اسے روکنے کی کوشش کرے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 194]
لغوی تشریح:
«اَلتَّثَاؤُبُ» ہمزہ کے ساتھ ہے۔ «التثاؤب» کے معنی ہیں: دل کے عضلات میں جو بخارات اور گیسیں جمع ہو جاتی ہیں ان کو خارج کرنے کے لیے منہ کا کھولنا تاکہ وہ خارج ہو جائیں۔
«مِنَ الشَّيْطَانِ» جمائی شیطان کی طرف سے ہے کیونکہ جمائی، معدے کے خوب پر ہونے، بدن کے بوجھل اور بھاری ہونے اور حواس کے مکدر ہونے، جو سوئے فہم، سستی اور نیند کا موجب ہوتا ہے، کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ سب چیزیں شیطان کو مرغوب اور پسندیدہ ہیں، اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جمائی شیطانی حرکت ہے۔
«فَلْيَكْظِمْ» یائے مضارع پر فتحہ اور خا کے نیچے کسرہ ہے یعنی اس کو روکے، باز رکھے، اسے روکنے کے لئے دونوں ہونٹوں کو بند رکھے یا منہ پر ہاتھ رکھ لے۔

فوائد و مسائل:
➊ جمائی سستی، کاہلی اور معدہ کو خوب پر کرنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں بندے کو دیکھ کر شیطان خوش ہوتا ہے۔
➋ صحیح بخاری میں ہے کہ ھا نہ کہے، یعنی آوز نہ نکالے، اس سے شیطان خوش ہوتا ہے۔ [صحيح البخاري، الادب، باب ما يستحب من العطاس، وما يكره من التثاؤب، حديث: 6223]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 194   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث968  
´نماز میں کون سی چیز مکروہ ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص جمائی لے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے اور آواز نہ کرے، اس لیے کہ شیطان اس سے ہنستا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 968]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (لایعوی)
کا مطلب ہے کہ جانور (کتے یا بھڑیے وغیرہ)
کی طرح آواز نہ نکالے۔
یہ لفظ بھی صحیح سند سے مروی نہیں لیکن بحیثیت مجموعی حدیث کامفہوم صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

(2)
جمائی کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تاکہ نامناسب آواز نہ نکلے ارشاد نبوی ہے۔
جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔
اسے جہاں تک ہوسکے ر وک دے کیونکہ جب وہ (جمائی لینے والا)
ہا کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔ (صحیح البخاري، الأدب باب إذا تثاءب فلیضع یدہ علی فیه، حدیث: 6226)

(3)
شیطان کے ہنسنے کی وجہ یا تو انسان کا مذاق اڑانا ہے۔
یا وہ خوشی سے ہنستا ہے۔
کیونکہ جمائی سستی اور کاہلی کی علامت ہے جو شیطان کو پسند ہے۔
اس لئے کہ کاہلی کی وجہ سے انسان بہت سی نیکیوں سے محروم رہ جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 968   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7490  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جمائی شیطانی چیزہے،تو جب تم میں سےکوئی کسی کو جمائی آئے،تو مقدور بھر(جہاں تک ہوسکے) اس کو روکے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7490]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
فليكظم:
اس کو روکے،
كظم روکنے کو کہتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
جمائی بسیار خوری یا پر خوری اور کاہلی و سستی کی علامت ہے،
اگر اس کو روکا نہ جائے،
تو انسان کے منہ کی ہیئت و شکل بدنما نظر آتی ہے اور منہ کھلنے سے اس میں مکھی وغیرہ داخل ہوجاتی ہے،
اس لیے اس کو ناپسندیدہ قرار دیاگیا ہے اوراسے روکنے کی تاکید کی گئی ہے،
اس لیے شیطان کو خوش ہونے اور ہنسنےکا موقع نہیں دینا چاہیے،
منہ کو بند کرلینا چاہیے،
یا اس پر ہاتھ رکھ لینا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7490   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3289  
3289. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جمائی لینا، شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں سے کوئی شخص جمائی لے تو جس قدر ممکن ہو اسے روکے کیونکہ جب کوئی (جمائی کے وقت) ہا، ہا کرتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3289]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جمائی لیتے وقت حتی الامکان اپنے منه کو بند کرکے آواز نہ نکلنے دے کیوں کہ یہ سستی کی علامت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3289   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3289  
3289. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جمائی لینا، شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں سے کوئی شخص جمائی لے تو جس قدر ممکن ہو اسے روکے کیونکہ جب کوئی (جمائی کے وقت) ہا، ہا کرتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3289]
حدیث حاشیہ:
جمائی کی حقیقت سانس ہے جس سے منہ زور سے کھلنے لگتا ہے تاکہ وہ جبڑوں کے درمیان رُکے ہوئے بخارات کو نکالے جو معدے کے زیادہ بھر جانے اور بدن کے بھاری ہونے سے پیدا ہوتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سبب سے نفرت دلائی جو اس کے پیدا ہونے کاذریعہ ہے۔
یاد رہے کہ کھانے پینے میں وسعت کی وجہ سے انسان کاجسم بوجھل، پھر وہ سستی کاشکار ہوجاتاہے۔
اس کے بعد اللہ کی عبادت بارگراں محسوس ہوتی ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے شیطان کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ وہ نفس کی خواہشات وشہوت کی طرف مائل کرتا ہے۔
جب انسان اس قسم کی حالت سے دوچار ہوتواسے حتی المقدور روکے، اگرنہ رکے تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے، منہ کھلا چھوڑ کر جمائی لینا اور ہا، ہا کی آوازیں نکالنا انسانی وقار کے منافی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3289   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.