(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، وهناد، قالا: حدثنا وكيع، عن ابان بن يزيد العطار، عن بديل بن ميسرة العقيلي، عن ابي عطية، رجل منهم قال: كان مالك بن الحويرث ياتينا في مصلانا يتحدث، فحضرت الصلاة يوما، فقلنا له: تقدم، فقال: ليتقدم بعضكم حتى احدثكم لم لا اتقدم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من زار قوما فلا يؤمهم وليؤمهم رجل منهم " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وغيرهم قالوا: صاحب المنزل احق بالإمامة من الزائر، وقال بعض اهل العلم: إذا اذن له فلا باس ان يصلي به، وقال إسحاق: بحديث مالك بن الحويرث، وشدد في ان لا يصلي احد بصاحب المنزل، وإن اذن له صاحب المنزل، قال: وكذلك في المسجد لا يصلي بهم في المسجد إذا زارهم يقول: ليصل بهم رجل منهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبَانَ بْنِ يَزِيدَ الْعَطَّارِ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ الْعُقَيْلِيِّ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ، رَجُلٍ مِنْهُمْ قَالَ: كَانَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ يَأْتِينَا فِي مُصَلَّانَا يَتَحَدَّثُ، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ يَوْمًا، فَقُلْنَا لَهُ: تَقَدَّمْ، فَقَالَ: لِيَتَقَدَّمْ بَعْضُكُمْ حَتَّى أُحَدِّثَكُمْ لِمَ لَا أَتَقَدَّمُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلَا يَؤُمَّهُمْ وَلْيَؤُمَّهُمْ رَجُلٌ مِنْهُمْ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمْ قَالُوا: صَاحِبُ الْمَنْزِلِ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ مِنَ الزَّائِرِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَذِنَ لَهُ فَلَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ بِهِ، وقَالَ إِسْحَاق: بِحَدِيثِ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، وَشَدَّدَ فِي أَنْ لَا يُصَلِّيَ أَحَدٌ بِصَاحِبِ الْمَنْزِلِ، وَإِنْ أَذِنَ لَهُ صَاحِبُ الْمَنْزِلِ، قَالَ: وَكَذَلِكَ فِي الْمَسْجِدِ لَا يُصَلِّي بِهِمْ فِي الْمَسْجِدِ إِذَا زَارَهُمْ يَقُولُ: لِيُصَلِّ بِهِمْ رَجُلٌ مِنْهُمْ.
ابوعطیہ عقیلی کہتے ہیں کہ مالک بن حویرث رضی الله عنہ ہماری نماز پڑھنے کی جگہ میں آتے اور حدیث بیان کرتے تھے تو ایک دن نماز کا وقت ہوا تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ آگے بڑھئیے (اور نماز پڑھائیے)۔ انہوں نے کہا: تمہیں میں سے کوئی آگے بڑھ کر نماز پڑھائے یہاں تک کہ میں تمہیں بتاؤں کہ میں کیوں نہیں آگے بڑھتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو کسی قوم کی زیارت کو جائے تو ان کی امامت نہ کرے بلکہ ان کی امامت ان ہی میں سے کسی آدمی کو کرنی چاہیئے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ صاحب خانہ زیارت کرنے والے سے زیادہ امامت کا حقدار ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب اسے اجازت دے دی جائے تو اس کے نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسحاق بن راہویہ نے مالک بن حویرث رضی الله عنہ کی حدیث کے مطابق کہا ہے اور انہوں نے اس مسئلہ میں سختی برتی ہے کہ صاحب خانہ کو کوئی اور نماز نہ پڑھائے اگرچہ صاحب خانہ اسے اجازت دیدے، نیز وہ کہتے ہیں: اسی طرح کا حکم مسجد کے بارے میں بھی ہے کہ وہ جب ان کی زیارت کے لیے آیا ہو انہیں میں سے کسی آدمی کو ان کی نماز پڑھانی چاہیئے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 66 (596)، سنن النسائی/الإمامة 9 (788)، مسند احمد (3/436)، (تحفة الأشراف: 11186) (صحیح) (مالک بن حویرث کا مذکورہ قصہ صحیح نہیں ہے، صرف متنِ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی 481)»
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قصة مالك، صحيح أبي داود (609)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 596
´زائر کی امامت کا بیان۔` بدیل کہتے ہیں کہ ہمارے ایک غلام ابوعطیہ نے ہم سے بیان کیا کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری اس مسجد میں آتے تھے، (ایک بار) نماز کے لیے تکبیر کہی گئی تو ہم نے ان سے کہا: آپ آگے بڑھئیے اور نماز پڑھائیے، انہوں نے ہم سے کہا: تم اپنے لوگوں میں سے کسی کو آگے بڑھاؤ تاکہ وہ تمہیں نماز پڑھائے، میں ابھی تم لوگوں بتاؤں گا کہ میں تمہیں نماز کیوں نہیں پڑھا رہا ہوں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو شخص کسی قوم کی زیارت کے لیے جائے تو وہ ان کی امامت نہ کرے بلکہ انہیں لوگوں میں سے کوئی آدمی ان کی امامت کرے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 596]
596۔ اردو حاشیہ: اصل مسئلہ یوں ہی ہے اور اس کی حکمت واضح ہے کہ مقامی امام اور مقتدیوں کو ایک دوسرے کی عادت و احوال کا بخوبی علم ہوتا ہے، جبکہ زائر کو بالمعوم نہیں ہوتا اور اس سے مقتدیوں کو مشکل ہو سکتی ہے۔ تاہم وہ اگر اس کی خواہش کریں اور امام اجازت دے تو بلاشبہ جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 596
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 788
´زائر کی امامت کا بیان۔` مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: ”جب تم میں سے کوئی کسی قوم کی زیارت کے لیے جائے تو وہ انہیں ہرگز نماز نہ پڑھائے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 788]
788 ۔ اردو حاشیہ: تاہم امام کی اجازت سے امامت کرا سکتا ہے۔ یہ روایت مختصر ہے۔ دیکھیے حدیث نمبر: 3
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 788