جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ وحی موقوف ہو جانے کے واقعہ کا ذکر کر رہے تھے، آپ نے دوران گفتگو بتایا:
”میں چلا جا رہا تھا کہ یکایک میں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک آواز سنی، میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ فرشتہ جو
(غار) حراء میں میرے پاس آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، رعب کی وجہ سے مجھ پر دہشت طاری ہو گئی، میں لوٹ پڑا
(گھر آ کر) کہا: مجھے کمبل میں لپیٹ دو، تو لوگوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا، اسی موقع پر آیت
«يا أيها المدثر قم فأنذر» سے
«والرجز فاهجر» ”اے کپڑا اوڑھنے والے، کھڑے ہو جا اور لوگوں کو ڈرا، اور اپنے رب کی بڑائیاں بیان کر، اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر، اور ناپاکی کو چھوڑ دے
“ (المدثر: ۱-۵)، تک نازل ہوئی، یہ واقعہ نماز فرض ہونے سے پہلے کا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث یحییٰ بن کثیر نے بھی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے واسطہ سے جابر سے بھی روایت کی ہے،
۳- اور ابوسلمہ کا نام عبداللہ ہے۔
(یہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے بیٹے تھے اور ان کا شمار فقہائے مدینہ میں ہوتا تھا)۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6214
6214. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: پھر میرے پاس وحی آنے کا سلسلہ بند ہو گیا۔ ایک دن میں جا رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی۔ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا آسمان وزمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6214]
حدیث حاشیہ:
یہ حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے جو آج آپ کو بایں شکل نظر آئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6214