عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، اور چلنے میں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہو گئے تھے، آپ نے بآواز بلند یہ دونوں آیتیں:
«يا أيها الناس اتقوا ربكم إن زلزلة الساعة شيء عظيم» سے لے کر
«عذاب الله شديد» تک تلاوت فرمائی، جب صحابہ نے یہ سنا تو اپنی سواریوں کو ابھار کر ان کی رفتار بڑھا دی، اور یہ جان لیا کہ کوئی بات ہے جسے آپ فرمانے والے ہیں، آپ نے فرمایا:
”کیا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟
“، صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا:
”یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکاریں گے اور وہ اپنے رب کو جواب دیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا:
«ابعث بعث النار» ”بھیجو جہنم میں جانے والی جماعت کو
“، آدم علیہ السلام کہیں گے: اے ہمارے رب!
«بعث النار» ”کیا ہے
(یعنی کتنے)؟
“ اللہ کہے گا: ایک ہزار افراد میں سے نو سو ننانوے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا، یہ سن کر لوگ مایوس ہو گئے، ایسا لگا کہ اب یہ زندگی بھر کبھی ہنسیں گے نہیں، پھر جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی یہ
(مایوسانہ) کیفیت و گھبراہٹ دیکھی تو فرمایا:
”اچھے بھلے کام کرو اور خوش ہو جاؤ
(اچھے اعمال کے صلے میں جنت پاؤ گے) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! تم ایسی دو مخلوق کے ساتھ ہو کہ وہ جس کے بھی ساتھ ہو جائیں اس کی تعداد بڑھا دیں، ایک یاجوج و ماجوج اور دوسرے وہ جو اولاد آدم اور اولاد ابلیس میں سے
(حالت کفر میں) مر چکے ہیں، آپ کی اس بات سے لوگوں کے رنج و فکر کی اس کیفیت میں کچھ کمی آئی جسے لوگ شدت سے محسوس کر رہے تھے اور اپنے دلوں میں موجود پا رہے تھے۔
“ آپ نے فرمایا:
”نیکی کا عمل جاری رکھو، اور ایک دوسرے کو خوشخبری دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تم تو لوگوں میں بس ایسے ہو جیسے اونٹ
(جیسے بڑے جانور) کے پہلو
(پسلی) میں کوئی داغ یا نشان ہو، یا چوپائے کی اگلی دست میں کوئی تل ہو
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3169
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی بہت زیادہ گھبرانے کی بات اور ضرورت نہیں ہے،
جب اکثریت انہیں کفار ومشرکین کی ہے تو جہنم میں بھی وہی زیادہ ہوں گے،
ایک آدھ نام نہاد مسلم جائے گا بھی تو اسے اپنی بدعملی کی وجہ سے جانے سے کون روک سکتا ہے،
اور جو نہ جانا چاہے وہ اپنے ایمان وعقیدے کو درست رکھے شرک وبدعات سے دور رہے گا اور نیک وصالح اعمال کرتا رہے،
ایسا شخص ان شاء اللہ ضرور جنت میں جائے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3169
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2941
´سورۃ الحج میں «وترى الناس سكارى وما هم بسكارى» کی قرأت کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «وترى الناس سكارى وما هم بسكارى» ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب القراءات/حدیث: 2941]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہی مشہورقراء ت ہے،
جس کے معنی ہیں:
(اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش اوربدمست دکھائی دیں گے،
حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہوں گے،
لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے)،
بعض اور قاریوں نے اسے ﴿سَکْرَی﴾ پڑھا ہے۔
2؎:
الحج: 1۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2941