(موقوف) حدثنا حدثنا خلاد بن اسلم البغدادي، حدثنا النضر بن شميل، عن إسرائيل، عن ثوير بن ابي فاختة، عن ابيه، عن علي بن ابي طالب، قال: " ما في القرآن آية احب إلي من هذه الآية إن الله لا يغفر ان يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء سورة النساء آية 48 "، قال: هذا حديث حسن غريب، وابو فاختة اسمه سعيد بن علاقة، وثوير يكنى ابا جهم وهو رجل كوفي من التابعين، وقد سمع من ابن عمر، وابن الزبير، وابن مهدي كان يغمزه قليلا.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ ثُوَيْرِ بْنِ أَبِي فَاخِتَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: " مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ سورة النساء آية 48 "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو فَاخِتَةَ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ، وَثُوَيْرٌ يُكْنَى أَبَا جَهْمٍ وَهُوَ رَجُلٌ كُوفِيٌّ مِنَ التَّابِعِينَ، وَقَدْ سَمِعَ مِنَ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ مَهْدِيٍّ كَانَ يَغْمِزُهُ قَلِيلًا.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی آیت مجھے اس آیت: «إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء»”اللہ اس بات کو معاف نہیں کر سکتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، ہاں اس کے سوا جس کسی بھی چیز کو چاہے گا معاف کر دے گا“(النساء: ۱۱۶)، سے زیادہ محبوب و پسندیدہ نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابوفاختہ کا نام سعید بن علاقہ ہے، ۳- ثویر کی کنیت ابوجہم ہے اور وہ کوفہ کے رہنے والے ہیں تابعی ہیں اور ابن عمر اور ابن زبیر سے ان کا سماع ہے، ابن مہدی ان پر کچھ طعن کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10111) (ضعیف الإسناد) (سند میں ثویر شیعی اور ضعیف راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3037) إسناده ضعيف ثوير ضعيف رافضي (تقدم: 501)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3037
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ”اللہ اس بات کو معاف نہیں کر سکتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، ہاں اس کے سوا جس کسی بھی چیز کو چاہے گا معاف کر دے گا“(النساء: 116)
نوٹ: (سند میں ثویر شیعی اور ضعیف راوی ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3037