(مرفوع) حدثنا حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن مسعود، انه سئل عن قوله: " ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احياء عند ربهم يرزقون سورة آل عمران آية 169، فقال: اما إنا قد سالنا عن ذلك فاخبرنا، ان ارواحهم في طير خضر تسرح في الجنة حيث شاءت وتاوي إلى قناديل معلقة بالعرش، فاطلع إليهم ربك اطلاعة، فقال: هل تستزيدون شيئا فازيدكم؟ قالوا: ربنا وما نستزيد ونحن في الجنة نسرح حيث شئنا، ثم اطلع إليهم الثانية فقال: هل تستزيدون شيئا فازيدكم؟ فلما راوا انهم لم يتركوا قالوا: تعيد ارواحنا في اجسادنا حتى نرجع إلى الدنيا فنقتل في سبيلك مرة اخرى "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ: " وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سورة آل عمران آية 169، فَقَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ فَأُخْبِرْنَا، أَنَّ أَرْوَاحَهُمْ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ وَتَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ: هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ؟ قَالُوا: رَبَّنَا وَمَا نَسْتَزِيدُ وَنَحْنُ فِي الْجَنَّةِ نَسْرَحُ حَيْثُ شِئْنَا، ثُمَّ اطَّلَعَ إِلَيْهِمُ الثَّانِيَةَ فَقَالَ: هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ؟ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَمْ يُتْرَكُوا قَالُوا: تُعِيدُ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے آیت «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» کی تفسیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا: لوگو! سن لو، ہم نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) اس کی تفسیر پوچھی تھی تو ہمیں بتایا گیا کہ شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں ہیں، جنت میں جہاں چاہتی گھومتی پھرتی ہیں اور شام میں عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں۔ ایک بار تمہارے رب نے انہیں جھانک کر ایک نظر دیکھا اور پوچھا: ”تمہیں کوئی چیز مزید چاہیئے تو میں عطا کروں؟“ انہوں نے کہا: رب! ہمیں مزید کچھ نہیں چاہیئے۔ ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں گھومتی ہیں۔ پھر (ایک دن) دوبارہ اللہ نے ان کی طرف جھانکا اور فرمایا: ”کیا تمہیں مزید کچھ چاہیئے تو میں عطا کر دوں؟“ جب انہوں نے دیکھا کہ (اللہ دینے پر ہی تلا ہوا ہے، بغیر مانگے اور لیے) چھٹکارا نہیں ہے تو انہوں نے کہا: ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں دوبارہ لوٹا دے، تاکہ ہم دنیا میں واپس چلے جائیں۔ پھر تیری راہ میں دوبارہ قتل کئے جائیں۔
هل تستزيدون شيئا فأزيدكم قالوا ربنا وما نستزيد ونحن في الجنة نسرح حيث شئنا ثم اطلع إليهم الثانية فقال هل تستزيدون شيئا فأزيدكم فلما رأوا أنهم لم يتركوا قالوا تعيد أرواحنا في أجسادنا حتى نرجع إلى الدنيا فنقتل في سبيلك مرة أخرى
أرواحهم كطير خضر تسرح في الجنة في أيها شاءت ثم تأوي إلى قناديل معلقة بالعرش فبينما هم كذلك إذ اطلع عليهم ربك اطلاعة فيقول سلوني ما شئتم قالوا ربنا ماذا نسألك ونحن نسرح في الجنة في أيها شئنا فلما رأوا أنهم لا يتركون من أن يسألوا قالوا نسألك أن ترد أرواح
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2801
´اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» کے بارے میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں جنت میں جہاں چاہیں چلتی پھرتی ہیں، پھر شام کو عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں، ایک بار کیا ہوا کہ روحیں اسی حال میں تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جھانکا پھر فرمانے لگا: تمہیں جو چاہیئے مانگو، روحوں نے کہا: ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں چلتی پھرتی ہیں، اس سے بڑھ کر کیا مان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2801]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) شہیدوں کو قیامت سے پہلے جنت میں داخل کردیا جاتا ہے۔
(2) برزخی زندگی میں شہیدوں کو دوسرا جسم ملتا ہے جو پرندوں کی شکل میں ہوتا ہے۔
(3) قیامت کے بعد دوسرے جنتیوں کی طرح انسانی جسم کے ساتھ جنت کی نعمتوں سے مستفید ہونگے۔
(4) شہیدوں کی روحیں دوبارہ دنیا میں نہیں آتی اور نہ انھیں دوبارہ دنیوی زندگی ہی ملتی ہے۔
(5) عرش الہی جنت سے اوپر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2801
اس سند سے ابن ابی عمر نے ابن مسعود سے اسی طرح روایت کی، مگر اس میں اتنا اضافہ کیا کہ ”ہمارا سلام ہمارے نبی سے کہہ دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ ہم (اپنے رب سے) راضی و خوش ہیں اور وہ ہم سے راضی و خوش ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ (یعنی: اوپر والی سند سے، کیونکہ دوسری سند میں انقطاع ہے)۔
تخریج الحدیث: «(ضعیف الإسناد) (عطاء بن السائب صدوق لیکن مختلط راوی ہیں، اور ابو عبیدہ کا لقاء اپنے والد عبداللہ بن مسعود سے نہیں ہے)»
قال الشيخ الألباني: (حديث مسروق عن عبد الله بن مسعود) صحيح، (حديث أبي عبيدة عن عبد الله بن مسعود الذي فيه زيادة) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (2801)
قال الشيخ زبير على زئي: (3011 ب) إسناده ضعيف أبو عبيدة لم يسمع من أبيه عبدالله بن مسعود رضى الله عنه (تقدم: 1061) والحديث الأول من الأصل صحيح