(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن ابي الاحوص، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان " يسلم عن يمينه وعن يساره السلام عليكم ورحمة الله السلام عليكم ورحمة الله " قال: وفي الباب عن سعد بن ابي وقاص , وابن عمر , وجابر بن سمرة , والبراء , وابي سعيد , وعمار , ووائل بن حجر , وعدي بن عميرة , وجابر بن عبد الله. قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم، وهو قول: سفيان الثوري وابن المبارك , واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ " يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , وَابْنِ عُمَرَ , وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ , وَالْبَرَاءِ , وَأَبِي سَعِيدٍ , وَعَمَّارٍ , ووَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , وَعَدِيِّ بْنِ عَمِيرَةَ , وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، وَهُوَ قَوْلُ: سفيان الثوري وَابْنِ الْمُبَارَكِ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں «السلام عليكم ورحمة الله السلام عليكم ورحمة الله» کہہ کر سلام پھیرتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سعد بن ابی وقاص، ابن عمر، جابر بن سمرہ، براء، ابوسعید، عمار، وائل بن حجر، عدی بن عمیرہ اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس سے دونوں طرف دائیں اور بائیں سلام پھیرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، ابوداؤد کی روایت میں «حتى يرى بياض خده» کا اضافہ ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 295
اردو حاشہ: 1؎: اس سے دونوں طرف دائیں اور بائیں سلام پھیرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے، ابو داؤد کی روایت میں ((حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ)) کا اضافہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 295
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1326
´بائیں طرف سلام پھیرنے کی کیفیت کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں طرف «السلام عليكم ورحمة اللہ» کہتے ہوئے سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کے دائیں گال کی سفیدی دکھائی دینے لگتی، اور بائیں طرف «السلام عليكم ورحمة اللہ» کہتے ہوئے سلام پھیرتے یہاں تک کہ آپ کے بائیں گال کی سفیدی دکھائی دینے لگتی۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1326]
1326۔ اردو حاشیہ: روایات کے تتبع سے سلام کہنے کے چار طریقے ملتے ہیں، ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل کر لیا جائے تو درست ہے۔ ➊ دائیں اور بائیں دونوں جانب «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» کہنا اور یہ طریقہ زیادہ مشہور اور معمول بہ ہے کیونکہ اکثر روایات میں یہی طریقہ مروی ہے۔ ➋ دائیں اور بائیں دونوں جانب «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وبركاتُه» کہنا۔ ➌ دابئیں جانب «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» اور بائیں جانب «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ» ➍ صرف سامنے کی طرف منہ کر کے «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ» کہنا اور چہرے کا میلان تھوڑا سا دائیں جانب ہو۔ بعض علماء دائیں جانب «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وبركاتُه» اور بائیں جانب «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» کہنے کے قائل ہیں لیکن ان کا یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ سنن ابی داود کی جس روایت سے صرف دائیں جانب «وبرکاتہ» کا اضافہ ثابت ہے علمائے محققین اس کی بابت فرماتے ہیں کہ سنن ابی داود کے صحیح اور معتمد نسخوں میں دونوں طرف «وبركاتُه» کا اضافہ منقول ہے۔ بنابریں دائیں اور بائیں دونوں جانب «وبركاتُه» کہنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [أصل صفة صلاة النبي، للألباني، ص: 1036-1023، وذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 306-296/15]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1326
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1042
´نماز سے فارغ ہو کر کس طرف سے پلٹنا چاہئے؟` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کا کچھ حصہ شیطان کے لیے نہ بنائے کہ وہ صرف دائیں طرف ہی سے پلٹے، حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ اکثر بائیں طرف سے پلٹتے تھے، عمارہ کہتے ہیں: اس کے بعد میں مدینہ آیا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو (بحالت نماز) آپ کے بائیں جانب دیکھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1042]
1042۔ اردو حاشیہ: ➊ حضرت عمارہ رضی اللہ عنہا کا استشہاد یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کے بعد اذکار وغیرہ سے فارغ ہو کر اپنے گھروں کو بائیں جانب ہی جانا ہوتا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماًاپنے بائیں جانب سے ہی اپنا منہ موڑتے رہے ہوں گے۔ ➋ بقول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سنت کے کسی ایک ہی انداز میں اس قدر اصرار کے دوسرے سے اعراض یا اس کی تکذیب سمجھی جائے۔ دین میں بےحد برا عمل ہے، گویا شیطان کا حصہ ملانا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1042
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث914
´سلام پھیرنے کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے، یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دکھائی دینے لگتی، اور آپ کہتے: «السلام عليكم ورحمة الله» ۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 914]
اردو حاشہ: فوائدومسائل:
(1) نماز سے فارغ ہونے کا طریقہ سلام پھیرنا ہے۔ جیسے کہ حدیث 275 اور 276 میں بیان ہوا ہے۔
(2) سلام پھیرنے کے مختلف طریقے وارد ہیں۔ مثلاً (الف) السلام و علیکم ورحمة اللہ۔ السلام علیکم ورحمة اللہ (جیسے حدیث 916 میں آرہا ہے۔)
(ب) السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته۔ (بلوغ المرام، لإبن حجر، الصلاۃ، باب صفة الصلاۃ، حدیث: 253)
(ج) صرف ایک سلام کےساتھ نماز سے فارغ ہونا بھی درست ہے۔ ایک سلام کہتے ہوئے تھوڑا سا دایئں طرف منہ کرنا چاہیے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، باب: 106، حدیث: 296)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 914
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث930
´نماز کے بعد امام کے دائیں یا بائیں طرف پھرنے کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی اپنی ذات میں شیطان کے لیے حصہ مقرر نہ کرے، وہ یہ سمجھے کہ اس پر اللہ کا یہ حق ہے کہ نماز کے بعد وہ صرف اپنے دائیں جانب سے پھرے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اکثر بائیں جانب سے مڑتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 930]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین بدعت سے اس قدر احتیاط فرماتے تھے کہ بظاہر معمولی نظر آنے والے امور میں بھی سنت پر من عن عمل کرنا ضروری سمجھتے تھے۔
(2) غیر واجب اور مستحب کو واجب کی طرح اختیار کرلینا درست نہیں۔ ایسے معاملات میں کبھی کبھار دوسرے طریقے پر بھی عمل کرلینا چاہیے۔
(3) شیطان انسان کو افراط وتفریط دونوں طریقوں سے گمراہ کرتا ہے۔ نفل کو فرض کا درجہ دینا بھی ایک غلو ہے۔ اس لئے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے شیطان کا حصہ قرار دیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 930
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1313
حضرت معمر رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ مکہ مکرمہ کا ایک حاکم دو طرف سلام پھیرتا تھا تو عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، اس نے کہاں سے یہ سنت حاصل کر لی؟ حکم نے اپنی حدیث میں کہا، رسول اللہ ﷺ ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1313]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: اَنّٰي عَلَّمَهَا: اس نے یہ سنت کہاں سے حاصل کر لی، یعنی اس حاکم نے سنت سلام کی معرفت پر تعجب کا اظہار کیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1313
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1638
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ تم میں سے کوئی اپنی ذات سے شیطان کو حصہ نہ دے، یہ نہ خیال کرے کہ اس پر لازم ہے کہ وہ نماز سے دائیں طرف ہی مڑے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اکثر دیکھا ہے کی آپ ﷺ بائیں طرف پھرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1638]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: شریعت جس چیز کو لازم اور واجب قرارنہیں دیتی اس کو اپنی طرف سے واجب ٹھہرنا اپنے میں سے شیطان کو حصہ دینا ہے اس لیے اس حدیث سے بقول علامہ سعیدی یہ قاعدہ مستبط ہوا کہ شریعت نے جس عبادت کا جوحکم بیان کیا ہے اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے جو شخص اس حکم سے تجاوز کرتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت بدل کر نئی شریعت بنا رہا ہے ہمارے خیال میں اس سے بڑھ کر اور گمراہی نہیں ہے شرح صحیح مسلم (ج2ص: 418) لیکن اب سوال یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے فوت شدہ مسلمانوں کو ایصال ثواب کے لیے تیسرے دسویں اور چالیسوں دن قرآن پا ک کی تلاوت کرنا اور صدقہ کرنا ثابت نہیں ہے تو کیا اس کا امر مستحب قراردینا شریعت سازی نہیں ہے جب کہ صورت حال یہ ہے تیجا، ساتواں اور دسواں وغیرہ نہ کرنے والے کو ملامت کی جاتی ہے اور یہ واجب ٹھہرانے کی علامت ہے- علامہ سعیدی لکھتے ہیں، واجب اور مستحب میں یہ فرق ہے کہ واجب کے تارک کو نہ کرنے پر ٹوکا جاتا ہے اور اسے ملامت کی جاتی ہے کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا اور مستحب کے تارک کو ملامت نہیں کی جاتی نہ ہی نہ کرنے پر ٹوکا جاتا ہے اگر کوئی شخص کسی مستحب کام کے نہ کرنے پر ٹوک رہا ہے تو دوسرے لفظوں میں وہ اس مستحب کو واجب بنا رہا ہے۔ (اَلْعَيَاذُ بِاللهِ) (شرح مسلم الرواح: 2 /418) پہلے تو تیجے، ساتویں وغیرہ کی اپنی طرف سے تعیین کر لی جب کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور پھر یہ کام نہ کرنے والے کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کیا یہ اس کو لازم اور واجب قرار دینا نہیں ہے جو گمراہی میں بدعت سئیہ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1638
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 852
852. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کا حصہ نہ بنائے، وہ اس طرح کہ نماز کے بعد دائیں جانب سے پھرنے کو ضروری خیال کرے۔ یقینا میں نے نبی ﷺ کو اکثر اپنی بائیں جانب سے بھی پھرتے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:852]
حدیث حاشیہ: تشریح: معلوم ہوا کہ کسی مباح یا مستحب کام کولازم یا واجب کر لینا شیطان کا اغوا ہے ابن منیر نے کہا مستحب کام کو اگر کوئی لازم قرار دے تو وہ مکروہ ہو جاتا ہے جب مباح کام لازم قرار دینے سے شیطان کا حصہ سمجھا جائے تو جو کام مکروہ یا بدعت ہے اس کو کوئی لازم قرار دے لے اور اس کے نہ کرنے پر خدا کو بندوں کے ستائے یا ان کا عیب کرے تو اس پر شیطان کا کیا تسلط ہے سمجھ لینا چاہیے۔ ہمارے زمانہ میں یہ بلابہت پھیلی ہے۔ بے اصل کاموں کو عوام کیا بلکہ خواص نے لازم قرار دے لیا ہے (مولانا وحید الزماں) تیجہ، فاتحہ چہلم وغیرہ سب اسی قسم کے کام ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 852
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:852
852. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کا حصہ نہ بنائے، وہ اس طرح کہ نماز کے بعد دائیں جانب سے پھرنے کو ضروری خیال کرے۔ یقینا میں نے نبی ﷺ کو اکثر اپنی بائیں جانب سے بھی پھرتے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:852]
حدیث حاشیہ: (1) شریعت نے اگر کسی کام کے متعلق دو حیثیت سے وسعت دی ہو تو کسی ایک پر جمود یا انحصار کرنا درست نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات ترک مستحب پر تنبیہ بھی کی جا سکتی ہے۔ ابن منیر نے کہا ہے کہ مستحب مکروہ کے دائرے میں شامل ہو جاتا ہے جبکہ اسے اس کے مرتبے سے اونچا کر دیا جائے کیونکہ دائیں جانب تمام کاموں میں مستحب ہے لیکن جب حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو خطرہ محسوس ہوا کہ لوگ اسے اپنے آپ پر واجب قرار دے لیں گے تو اس کے مکروہ ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔ جب مباح کام کو لازم قرار دینے سے شیطان کا حصہ سمجھا جائے تو جو کام ناجائز یا بدعت ہے اسے اگر کوئی لازم قرار دے لے اور اس کے نہ کرنے پر دوسروں کو ملامت کرے تو ایسے انسان پر تو شیطان پوری طرح مسلط ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري: 437/2) ہمارے اس دور میں یہ وبا بہت عام ہے کہ بدعات و رسومات، مثلاً: قل خوانی، فاتحہ، چہلم اور برسی وغیرہ کو عام و خاص نے اپنے آپ پر لازم قرار دے لیا ہے اور نہ کرنے والوں کو لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ واللہ المستعان۔ (2) حضرت انس ؓ کے کہنے کے مطابق نماز سے فراغت کے بعد اکثر طور پر رسول اللہ ﷺ دائیں جانب مڑتے تھے جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اکثر بائیں جانب مڑتے دیکھا ہے۔ ان دونوں حضرات کے بیان میں بظاہر تضاد ہے۔ تطبیق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں: ٭ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کو مسجد میں نماز پڑھنے پر محمول کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے گھر مسجد کی بائیں جانب تھے جبکہ حضرت انس ؓ کے بیان کو اس کے علاوہ سفر وغیرہ پر محمول کیا جائے۔ ٭ بحالت نماز اگر پھرنے کی ضرورت ہوتی تو اکثر اوقات بائیں جانب سے پھرتے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا ہے۔ اگر مقتدی حضرات کی طرف منہ کرنا ہوتا تو نماز کے بعد دائیں جانب سے ان کی طرف پھرتے جیسا کہ حضرت انس ؓ نے کہا ہے۔ اس بنا پر انصراف کسی معین جہت کے ساتھ خاص نہ تھا۔ (فتح الباري: 437/2) واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 852