(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن خيثمة، عن الحسن، عن عمران بن حصين، انه مر على قاص يقرا، ثم سال فاسترجع، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من قرا القرآن فليسال الله به فإنه سيجيء اقوام يقرءون القرآن يسالون به الناس "، وقال محمود: وهذا خيثمة البصري الذي روى عنه جابر الجعفي، وليس هو خيثمة بن عبد الرحمن، وخيثمة هذا شيخ بصري يكنى ابا نصر قد روى عن انس بن مالك احاديث، وقد روى جابر الجعفي عن خيثمة هذا ايضا احاديث، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن ليس إسناده بذاك.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّهُ مَرَّ عَلَى قَاصٍّ يَقْرَأُ، ثُمَّ سَأَلَ فَاسْتَرْجَعَ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلْيَسْأَلِ اللَّهَ بِهِ فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَسْأَلُونَ بِهِ النَّاسَ "، وَقَالَ مَحْمُودٌ: وَهَذَا خَيْثَمَةُ الْبَصْرِيُّ الَّذِي رَوَى عَنْهُ جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ، وَلَيْسَ هُوَ خَيْثَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَخَيْثَمَةُ هَذَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ يُكْنَى أَبَا نَصْرٍ قَدْ رَوَى عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَحَادِيثَ، وَقَدْ رَوَى جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ خَيْثَمَةَ هَذَا أَيْضًا أَحَادِيثَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک قصہ گو کے پاس سے گزرے جو قرآن پڑھ رہا تھا (پڑھ کر) وہ مانگنے لگا۔ تو انہوں نے «إنا لله وإنا إليه راجعون» پڑھا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے جو قرآن پڑھے تو اسے اللہ ہی سے مانگنا چاہیئے۔ کیونکہ عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو قرآن پڑھ پڑھ کر لوگوں سے مانگیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، اس کی سند ویسی قوی نہیں ہے، ۲- محمود بن غیلان کہتے ہیں: یہ خیثمہ بصریٰ ہیں جن سے جابر جعفی نے روایت کی ہے۔ یہ خیثمہ بن عبدالرحمٰن نہیں ہیں۔ اور خیثمہ شیخ بصریٰ ہیں ان کی کنیت ابونصر ہے اور انہوں نے انس بن مالک سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ اور جابر جعفی نے بھی خیثمہ سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10795)، وانظر مسند احمد (4/432، 436، 439) (حسن) (سند میں کلام ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة رقم 257)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (257)
قال الشيخ زبير على زئي: (2917) إسناده ضعيف سليمان الاعمش والحسن البصيري عنعنا (تقدما: 169،21) وفيه علة أخري