عامر بن سعد سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کو (زمین پر) رکھنے کا حکم دیا ہے، آگے راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی، البتہ انہوں نے اس میں «عن أبيه» کا ذکر نہیں کیا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عامر بن سعد سے مرسلاً روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں (زمین پر) رکھنے اور دونوں قدموں کو کھڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ۲؎، ۲- یہ مرسل روایت وہیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۳؎، اور اسی پر اہل علم کا اجماع ہے، اور لوگوں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ روایت عامر کی اپنی ہے، ان کے باپ سعد رضی الله عنہ کی نہیں، اس لیے یہ مرسل روایت ہوئی۔
۲؎: دونوں ہاتھوں سے مراد دونوں ہتھیلیاں ہیں اور انہیں زمین پر رکھنے سے مراد انہیں دونوں کندھوں یا چہرے کے بالمقابل رکھنا ہے اور دونوں قدموں کے کھڑے رکھنے سے مراد انہیں ان کی انگلیوں کے پیٹوں پر کھڑا رکھنا اور انگلیوں کے سروں سے قبلہ کا استقبال کرنا ہے۔
۳؎: ان دونوں روایتوں کا ماحصل یہ ہے کہ معلی بن اسد نے یہ حدیث وہیب اور حماد بن مسعدہ دونوں سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے محمد بن عجلان سے اور محمد بن عجلان نے محمد بن ابراہیم سے اور محمد بن ابراہیم نے عامر بن سعد سے روایت کی ہے، لیکن وہیب نے اسے مسند کر دیا ہے اور عامر بن سعد کے بعد ان کے باپ سعد بن ابی وقاص کے واسطے کا اضافہ کیا ہے، جب کہ حماد بن مسعدۃ نے بغیر سعد بن ابی وقاص کے واسطے کے اسے مرسلاً روایت کیا ہے، حماد بن مسعدہ کی مرسل روایت وہیب کی مسند روایت سے زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ اور بھی کئی لوگوں نے اسے حماد بن مسعدہ کی طرح مرسلاً ہی روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر ما قبلہ (حسن) (اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 278
اردو حاشہ: 1؎: یعنی یہ روایت عامر کی اپنی ہے، ان کے باپ سعد رضی اللہ عنہ کی نہیں، اس لیے یہ مرسل روایت ہوئی۔
2؎: دونوں ہاتھوں سے مراد دونوں ہتھیلیاں ہیں اور انہیں زمین پر رکھنے سے مراد انہیں دونوں کندھوں یا چہرے کے بالمقابل رکھنا ہے اور دونوں قدموں کے کھڑے رکھنے سے مراد انہیں ان کی انگلیوں کے پیٹوں پر کھڑا رکھنا اور انگلیوں کے سروں سے قبلہ کا استقبال کرنا ہے۔
3؎: ان دونوں روایتوں کا ماحصل یہ ہے کہ معلی بن اسد نے یہ حدیث وہیب اور حماد بن مسعدہ دونوں سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے محمد بن عجلان سے اور محمد بن عجلان نے محمد بن ابراہیم سے اور محمد بن ابراہیم نے عامر بن سعد سے روایت کی ہے، لیکن وہیب نے اسے مسند کر دیا ہے اور عامر بن سعد کے بعد ان کے باپ سعد بن ابی وقاص کے واسطے کا اضافہ کیا ہے، جب کہ حماد بن مسعدۃ نے بغیر سعد بن ابی وقاص کے واسطے کے اسے مرسلاً روایت کیا ہے، حماد بن مسعدہ کی مرسل روایت وہیب کی مسند روایت سے زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ اور بھی کئی لوگوں نے اسے حماد بن مسعدہ کی طرح مرسلاً ہی روایت کیا ہے۔
نوٹ: (اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 278