صنابحی سے روایت ہے کہ میں عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کے پاس اس وقت گیا جب وہ موت کی حالت میں تھے، میں
(انہیں دیکھ کر) رو پڑا، انہوں نے کہا: ٹھہرو ٹھہرو، روتے کیوں ہو؟ قسم اللہ کی! اگر مجھ سے گواہی طلب کی گئی تو میں
(آخرت میں) تمہارے ایمان کی گواہی دوں گا، اور اگر مجھے شفاعت کا موقع دیا گیا تو میں تمہاری سفارش ضرور کروں گا اور اگر مجھے کچھ استطاعت نصیب ہوئی تو میں تمہیں ضرور فائدہ پہنچاؤں گا۔ پھر انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جسے میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو اور اس میں تم لوگوں کے لیے خیر ہو مگر میں نے اسے تم لوگوں سے بیان نہ کر دیا ہو، سوائے ایک حدیث کے اور آج میں اسے بھی تم لوگوں سے بیان کیے دے رہا ہوں جب کہ میری موت قریب آ چکی ہے، میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
”جو گواہی دے کہ کوئی معبود
(برحق) نہیں سوائے اللہ کے اور گواہی دے کہ محمد
( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں تو اللہ اس پر آگ کو حرام کر دے گا
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- میں نے ابن ابی عمر کو کہتے ہوئے سنا کہ ابن عیینہ کہتے تھے کہ محمد بن عجلان ثقہ آدمی ہیں اور حدیث میں مامون
(قابل اعتماد) ہیں،
۳- صنابحی سے مراد عبدالرحمٰن بن عسیلہ ابوعبداللہ ہیں
(ابوعبداللہ کنیت ہے)،
۴- اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، جابر، ابن عمر، اور زید بن خالد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۵- زہری سے مروی ہے کہ ان سے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:
«من قال لا إله إلا الله دخل الجنة» ”جس نے
«لا إله إلا الله» کہا وہ جنت میں داخل ہو گا
“ کے متعلق پوچھا گیا
(کہ اس کا مطلب کیا ہے؟) تو انہوں نے کہا: یہ شروع اسلام کی بات ہے جب کہ فرائض اور امر و نہی کے احکام نہیں آئے تھے،
۶- بعض اہل علم کے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ اہل توحید
(ہر حال میں) جنت میں جائیں گے اگرچہ انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے آگ کی سزا سے بھی کیوں نہ دوچار ہونا پڑے، کیونکہ وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے
۱؎،
۷- عبداللہ بن مسعود، ابوذر، عمران بن حصین، جابر بن عبداللہ، ابن عباس، ابو سعید خدری، انس بن مالک رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عنقریب ایسا ہو گا کہ توحید کے قائلین کی ایک جماعت جہنم سے نکلے گی اور جنت میں داخل ہو گی
“ ۲؎، ایسا ہی سعید بن جبیر ابراہیم نخعی اور دوسرے بہت سے تابعین سے مروی ہے، یہ لوگ آیت
«ربما يود الذين كفروا لو كانوا مسلمين» ”وہ بھی وقت ہو گا کہ کافر اپنے مسلمان ہونے کی آرزو کریں گے
“ (الحجر: ۲)، کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ جب اہل توحید جہنم سے نکالے اور جنت میں داخل کئے جائیں گے تو کافر لوگ آرزو کریں گے اے کاش! وہ بھی مسلمان ہوتے۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 27
´لا الہ الا اللہ کہنے والے کے لیے خوشخبری`
«. . . وَعَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَابْنُ أَمَتِهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَالْجَنَّةُ وَالنَّارُ حَقٌّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ من الْعَمَل» . . .»
”. . . سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ ایک اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور یقیناًً محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور (تحقیق) عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور اس کی باندی کے بیٹے، اور اللہ تعالیٰ کا کلمہ جس کو مریم کی طرف ڈالا۔ اور اس کی طرف سے روح ہیں اور جنت دوزخ حق ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا خواہ اس نے کیسے ہی کام کیے ہوں۔“ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 27]
تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 3435]،
[صحیح مسلم 142،140]
فقہ الحدیث
➊ معلوم ہوا کہ ارکان اسلام و شرائط ایمان کی بہت سی شاخیں ہیں، جو قرآن و حدیث میں بیان کر دی گئی ہیں ان سب پر ایمان لانے کے بعد ہی اللہ کے فضل سے آدمی جنت میں داخلے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ جو شخص شرائط و ارکان ایمان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کر دے تو ایسا شخص جنت میں داخلے کا حقدار نہیں بلکہ اپنے کفر کی وجہ سے جہنمی ہے۔
➋ اس حدیث پاک میں یہود و نصاریٰ کا بیک وقت رد کیا گیا ہے۔ یہودی حضرات سیدنا عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا رسول نہیں مانتے اور عیسائی حضرات انہیں اللہ کا بندہ نہیں مانتے، بلکہ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ”عیسٰی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔
➌ «كلمةالله» کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے کلمے «كُن» سے باپ کے بغیر پیدا فرمایا ہے۔
«روح منه» کا مطلب ”اللہ کی پیدا کردہ اور پھونکی ہوئی روح ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ»
”اور اسی نے تمہارے لئے مسخر کیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اسی (کے پیدا کرنے) میں سے ہے۔“ [الجاثيه: 13]
جو مطلب «جميعاً منه» میں «منه» کا ہے وہی مطلب «روح منه» میں «منه» کا ہے۔
➍ اس صحیح حدیث سے معتزلہ و خوارج کا رد ہوتا ہے، جو کبیرہ گناہ کرنے والوں کو ابدی جہنمی سمجھتے ہیں۔
➎ مشہور جلیل القدر تابعی حسن بصری رحمہ اللہ (متوفی110ھ) فرماتے ہیں کہ:
”عیسی علیہ السلام کی موت سے پہلے (سب اہل کتاب آپ پر ایمان لے آئیں گے) اللہ کی قسم وہ اب اللہ کے پاس زندہ ہیں، جب وہ نازل ہوں گے، تو سب لوگ آپ پر ایمان لے آئیں گے۔“ [تفسير طبري 14/6 وسنده صحيح]
اسی پر خیرالقرون کا اجماع ہے۔ یاد رہے کہ سیدنا عیسیٰ ابن مریم الناصری علیہ السلام آسمانوں سے نازل ہوں گے جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [كشف الأستار عن زوائد البزار 142/4ه 3396 وسنده صحيح، اور الحديث حضرو: 2، 3، 4، 6]
ابوالحسن الاشعری (متوفی 324ھ) اپنی مشہور کتاب ”الابانۃ“ میں لکھتے ہیں:
«وأجمعت الأمة علٰي أن الله رفع عيسى إلى السماء»
”اور اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ بےشک اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ [ص 34، باب ذكر الاستواء على العرش]
➏ اس حدیث میں قرآن مجید، آخرت اور دیگر ارکان ایمان و شرائط ایمان کا ذکر نہیں ہے، جب کہ دوسرے دلائل میں ان کی ذکر موجود ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ اگر بعض دلائل میں کسی چیز کا ذکر موجود ہو اور دوسرے دلائل میں موجود نہ ہو تو عدم ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔
➐ جنت اور جہنم حق ہیں اور دونوں موجود ہیں، لہٰذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ جنت و جہنم کا وجود نہیں وہ باطل اور گمراہی پر ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 27
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 36
´مومن پر دوزخ کی آگ حرام ہے `
«. . . عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَرَّمَ الله عَلَيْهِ النَّار» . . .»
”. . . سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اس بات کی سچی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کر دیتا ہے . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 36]
تخریج الحدیث:
[صحیح مسلم 142]
فقہ الحدیث:
➊ جو شخص «لا الهٰ الا الله» (اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں) اور محمد رسول اللہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں) کی گواہی دیتا ہے تو یہ شخص مسلم ہے الا یہ کہ نواقض اسلام میں سے کوئی ناقض ثابت ہو جائے، جو اسے دائرہ اسلام سے باہر نکال دے۔ «والله المستعان»
➋ اہل توحید مسلمان جہنم میں کفار کی طرح ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ اگر کوئی مسلم کسی گناہ کی وجہ سے جنہم میں داخل ہو گا تو بالآخر اسے جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ «والحمد الله»
➌ جو شخص زبان کے ساتھ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی گواہی نہیں دیتا وہ شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
➍ ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
«من قال: لا اله الا الله صادقا بها دخل الجنة»
”جو شخص تصدیق کرتے ہوئے، لا الہٰ الا اللہ کہے گا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ [مسند أحمد 411/4 ح 19689 وسنده صحيح]
دوسری روایت میں آیا ہے:
«يشهد أن لا إلهٰ إلا الله مستيقنا بها قلبه فبشره بالجنة»
”جو شخص دل سے یقین کرتے ہوئے لا الہٰ الا اللہ کہے گا تو اسے جنت کی خوش خبری دے دو۔“ [صحيح مسلم: 31/82]
ایک اور روایت میں ہے:
«من قال: لا إلهٰ إلا الله و كفر بما يعبد من دون الله . . .»
”جو شخص لا الہٰ الا اللہ کہے اور اللہ کے سوا جس کی عبادت کی جاتی ہے اس (کی عبادت) کا انکار کرے۔“ الخ [صحيح مسلم: 23/37]
معلوم ہوا کہ لا الہٰ الا اللہ کے دلی و زبانی اقرار کے ساتھ شرک و کفر سے برأت کرنا بھی شرط ایمان ہے۔
➎ اس حدیث سے بھی ایمان کا قول و عمل ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 36
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 140
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سواکوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بے شک محمد اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے اور بے شک عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا بندہ اس کی بندی کا بیٹا ہے اور اس کا کلمہ ہے جس کا اس نے مریم کی طرف القاء کیا اور اس کی طرف سے روح ہے اور جنّت حق ہے، دوزخ حق ہے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو جنّت کے آٹھ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:140]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
كَلِمَةٌ:
بول کو کہتے ہیں چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمہ کن (ہو جا)
سے پیدا ہوئے ہیں،
اس لیے ان کو کلمہ قرار دیا گیا ہے۔
(2)
روحٌ منه:
حضرت عیسیٰ کی روح کی نسبت،
تعظیم و تکریم کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے،
جیسے بیت اللہ،
ناقۃ اللہ،
سورہ سجدہ میں انسان کی تخلیق کے سلسلہ میں فرمایا:
﴿وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ﴾ ”اس میں اپنی روح پھونکی“ منه کا معنی اس کا جز نہیں ہے وگرنہ ہر چیز اس کا جز ہو گی۔
سورۃ جاثیہ میں فرمایا:
﴿سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ﴾ (جاثیة: 13)
”اس نے تمہارے لیے مسخر کیا جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور جو کچھ بھی زمین میں ہے سب کو اپنی طرف سے۔
“ یہاں "جَمِيعًا مِّنْهُ" کا یہ معنی نہیں ہے کہ سب کچھ اس کا حصہ یا جز ہے۔
(3)
اَلْحَقّ:
حق اس موجود کو کہتے ہیں جو پایا جائے یا جس کا پایا جانا ضروری ہو،
اللہ تعالیٰ کو حق اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ازلی اور ابدی ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا،
جنت اور دوزخ کو حق اس لیے کہتے ہیں کہ ان کا پایا جانا یقینی ہے،
حق لازم اور واجب کو بھی کہتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 140
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 142
صنابحیؒ بیان کرتے ہیں: کہ میں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا جب کہ وہ موت کے قریب تھے، تو میں رو پڑا، وہ مجھے فرمانے لگے: ٹھہریے! کیوں روتے ہو؟ پس اللہ کی قسم! اگر مجھ سے گواہی لی گئی، تو میں ترے حق میں گواہی دوں گا اور اگر مجھے سفارش کا موقع ملا، تو میں تیری سفارش کروں گا اور اگر میرے بس میں ہوا، تو میں تجھے ضرور نفع پہنچاؤں گا۔ پھر کہا: اللہ کی قسم! جو حدیث بھی میں نے تمھاری بہتری کے باعث نبی اکرم ﷺ سے سنی، وہ ایک حدیث... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:142]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
لوگوں کے سامنے ان کی حیثیت اور ان کے علم وادراک کے مناسب ایسی احادیث بیان کرنی چاہئیں،
جو ان کے لیے بھلائی اور بہتری یا نفع کا باعث ہوں،
ایسی احادیث جو لوگوں کے فہم اور شعور سے بالا ہوں یا ان کے لیے فتنہ یا نقصان کا سبب بن سکتی ہوں،
ان کو بیان نہیں کرنا چاہیے۔
آخری وقت میں ان لوگوں کو یہ حدیث سنائی جس کے فہم وشعور پر اعتماد تھا کہ وہ اس سے اس بد فہمی یا غلط یا فہمی میں تباہ نہیں ہوں گے ان کو عملوں کی ضرورت نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 142