الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
Chapters on the description of the Day of Judgement, Ar-Riqaq, and Al-Wara'
حدیث نمبر: 2477
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا يونس بن بكير، حدثني عمر بن ذر، حدثنا مجاهد، عن ابي هريرة، قال: " كان اهل الصفة اضياف اهل الإسلام لا ياوون على اهل ولا مال، والله الذي لا إله إلا هو، إن كنت لاعتمد بكبدي على الارض من الجوع، واشد الحجر على بطني من الجوع، ولقد قعدت يوما على طريقهم الذي يخرجون فيه، فمر بي ابو بكر فسالته عن آية من كتاب الله ما اساله إلا لتستتبعني، فمر ولم يفعل، ثم مر بي عمر، فسالته عن آية من كتاب الله ما اساله إلا ليستتبعني فمر ولم يفعل، ثم مر ابو القاسم صلى الله عليه وسلم: فتبسم حين رآني، وقال: ابا هريرة، قلت: لبيك يا رسول الله، قال: الحق، ومضى فاتبعته ودخل منزله فاستاذنت فاذن لي فوجد قدحا من لبن، فقال: من اين هذا اللبن لكم، قيل: اهداه لنا فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ابا هريرة، قلت: لبيك، فقال: الحق إلى اهل الصفة فادعهم وهم اضياف الإسلام لا ياوون على اهل ولا مال إذا اتته صدقة بعث بها إليهم ولم يتناول منها شيئا، وإذا اتته هدية ارسل إليهم فاصاب منها واشركهم فيها، فساءني ذلك وقلت: ما هذا القدح بين اهل الصفة وانا رسوله إليهم، فسيامرني ان اديره عليهم، فما عسى ان يصيبني منه وقد كنت ارجو ان اصيب منه ما يغنيني، ولم يكن بد من طاعة الله وطاعة رسوله، فاتيتهم فدعوتهم، فلما دخلوا عليه فاخذوا مجالسهم، فقال ابا هريرة: خذ القدح واعطهم فاخذت القدح، فجعلت اناوله الرجل فيشرب حتى يروى، ثم يرده، فاناوله الآخر حتى انتهيت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد روى القوم كلهم، فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم القدح فوضعه على يديه ثم رفع راسه، فتبسم , فقال: ابا هريرة اشرب، فشربت، ثم قال: اشرب، فلم ازل اشرب ويقول: اشرب حتى قلت: والذي بعثك بالحق ما اجد له مسلكا، فاخذ القدح فحمد الله وسمى ثم شرب " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " كَانَ أَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ، وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِكَبِدِي عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ، وَأَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنَ الْجُوعِ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمُ الَّذِي يَخْرُجُونَ فِيهِ، فَمَرَّ بِي أَبُو بَكْرٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِتَسْتَتْبِعَنِي، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِيَسْتَتْبِعَنِي فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي، وَقَالَ: أَبَا هُرَيْرَةَ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْحَقْ، وَمَضَى فَاتَّبَعْتُهُ وَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَاسْتَأْذَنْتُ فَأَذِنَ لِي فَوَجَدَ قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ، فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ لَكُمْ، قِيلَ: أَهْدَاهُ لَنَا فُلَانٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبَا هُرَيْرَةَ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ، فَقَالَ: الْحَقْ إِلَى أَهْلِ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ وَهُمْ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا، فَسَاءَنِي ذَلِكَ وَقُلْتُ: مَا هَذَا الْقَدَحُ بَيْنَ أَهْلِ الصُّفَّةِ وَأَنَا رَسُولُهُ إِلَيْهِمْ، فَسَيَأْمُرُنِي أَنْ أُدِيرَهُ عَلَيْهِمْ، فَمَا عَسَى أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ وَقَدْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ أُصِيبَ مِنْهُ مَا يُغْنِينِي، وَلَمْ يَكُنْ بُدٌّ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ، فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ فَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ، فَقَالَ أَبَا هُرَيْرَةَ: خُذْ الْقَدَحَ وَأَعْطِهِمْ فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ، فَجَعَلْتُ أُنَاوِلُهُ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّهُ، فَأُنَاوِلُهُ الْآخَرَ حَتَّى انْتَهَيْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوَى الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَتَبَسَّمَ , فَقَالَ: أَبَا هُرَيْرَةَ اشْرَبْ، فَشَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ: اشْرَبْ، فَلَمْ أَزَلْ أَشْرَبُ وَيَقُولُ: اشْرَبْ حَتَّى قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَسَمَّى ثُمَّ شَرِبَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے، وہ مال اور اہل و عیال والے نہ تھے، قسم ہے اس معبود کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، بھوک کی شدت سے میں اپنا پیٹ زمین پر رکھ دیتا تھا اور بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا، ایک دن میں لوگوں کی گزرگاہ پر بیٹھ گیا، اس طرف سے ابوبکر رضی الله عنہ گزرے تو میں نے ان سے قرآن مجید کی ایک آیت اس وجہ سے پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں لیکن وہ چلے گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لیا، پھر عمر رضی الله عنہ گزرے، ان سے بھی میں نے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں مگر وہ بھی آگے بڑھ گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ پھر ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر مسکرایا اور فرمایا: ابوہریرہ! میں نے کہا: حاضر ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ساتھ چلو اور آپ چل پڑے، میں بھی ساتھ میں ہو لیا، آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے پھر میں نے بھی اجازت چاہی، چنانچہ مجھے اجازت دے دی گئی، وہاں آپ نے دودھ کا ایک پیالہ پایا، دریافت فرمایا: یہ دودھ کہاں سے ملا؟ عرض کیا گیا: فلاں نے اسے ہدیہ بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوہریرہ! میں نے کہا: حاضر ہوں، آپ نے فرمایا: جاؤ اہل صفہ کو بلا لاؤ، یہ مسلمانوں کے مہمان تھے ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، گھربار تھا نہ کوئی مال، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی صدقہ آتا تھا تو اسے ان کے پاس بھیج دیتے تھے، اس میں سے آپ کچھ نہیں لیتے تھے، اور جب کوئی ہدیہ آتا تو ان کو بلا بھیجتے، اس میں سے آپ بھی کچھ لے لیتے، اور ان کو بھی اس میں شریک فرماتے، لیکن اس ذرا سے دودھ کے لیے آپ کا مجھے بھیجنا ناگوار گزرا اور میں نے (دل میں) کہا: اہل صفہ کا کیا بنے گا؟ اور میں انہیں بلانے جاؤں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ہی حکم دیں گے کہ اس پیالے میں جو کچھ ہے انہیں دوں، مجھے یقین ہے کہ اس میں سے مجھے کچھ نہیں ملے گا، حالانکہ مجھے امید تھی کہ اس میں سے مجھے اتنا ضرور ملے گا جو میرے لیے کافی ہو جائے گا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا، چنانچہ میں ان سب کو بلا لایا، جب وہ سب آپ کے پاس آئے اور اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: ابوہریرہ! یہ پیالہ ان لوگوں کو دے دو، چنانچہ میں وہ پیالہ ایک ایک کو دینے لگا، جب ایک شخص پی کر سیر ہو جاتا تو میں دوسرے شخص کو دیتا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا، ساری قوم سیر ہو چکی تھی (یا سب لوگ سیر ہو چکے تھے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ لے کر اسے اپنے ہاتھ پر رکھا پھر اپنا سر اٹھایا اور مسکرا کر فرمایا: ابوہریرہ! یہ دودھ پیو، چنانچہ میں نے پیا، پھر آپ نے فرمایا: اسے پیو میں پیتا رہا اور آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق لے کر بھیجا ہے اب میں پینے کی گنجائش نہیں پاتا، پھر آپ نے پیالہ لیا، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور بسم اللہ کہہ کر دودھ پیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستئذان 14 (6246) (مختصرا) والرقاق 17 (6452) (تحفة الأشراف: 14344) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اہل و عیال اور مال والے نہ ہوں ان کا خاص خیال رکھا جائے، اصحاب صفہ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اسی خاص خیال کا نتیجہ ہے، آپ کے پاس جب ہدیہ کی کوئی چیز آتی تو اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے، دودھ کی کثرت یہ آپ کے معجزہ کی دلیل ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان کو مزید کھانے پینے کے لیے کہنا چاہیئے، اور کھانے کی مقدار اگر کافی ہے تو خوب سیر ہو کر کھانا پینا بھی جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري6452عبد الرحمن بن صخرالحق إلى أهل الصفة فادعهم لي قال وأهل الصفة أضياف الإسلام لا يأوون إلى أهل ولا مال ولا على أحد إذا أتته صدقة بعث بها إليهم ولم يتناول منها شيئا وإذا أتته هدية أرسل إليهم وأصاب منها وأشركهم فيها فساءني ذلك فقلت وما هذا
   صحيح البخاري6246عبد الرحمن بن صخرالحق أهل الصفة فادعهم إلي قال فأتيتهم فدعوتهم فأقبلوا فاستأذنوا فأذن لهم فدخلوا
   جامع الترمذي2477عبد الرحمن بن صخرالحق إلى أهل الصفة فادعهم وهم أضياف الإسلام لا يأوون على أهل ولا مال إذا أتته صدقة بعث بها إليهم ولم يتناول منها شيئا وإذا أتته هدية أرسل إليهم فأصاب منها وأشركهم فيها فساءني ذلك وقلت ما هذا القدح بين أهل الصفة وأنا رسوله إليهم فسيأمرني أن أديره عليهم
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2477 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2477  
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ جو لوگ اہل وعیال اور مال والے نہ ہوں ان کا خاص خیال رکھاجائے،
اصحاب صفہ کے ساتھ نبی اکرمﷺ کی محبت اسی خاص خیال کا نتیجہ ہے،
آپ کے پاس جب ہدیہ کی کوئی چیز آتی تو اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے،
دودھ کی کثرت یہ آپﷺ کے معجزہ کی دلیل ہے،
یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان کو مزید کھانے پینے کے لیے کہنا چاہیے،
اور کھانے کی مقدار اگر کافی ہے تو خوب سیر ہوکر کھانا پینابھی جائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2477   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6452  
6452. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں میں بعض اوقات بھوک كے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا اور بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میں اس راستے پر بیٹھ گیا جہاں صحابہ کرام کی آمد ورفت تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ وہاں سے گزرے تو میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے متعلق پوچھا۔ میرے پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں پلائیں لیکن وہ بغیر کچھ کیے وہاں سے چل دیے۔ پھرحضرت عمر بن خطاب ؓ میرے پاس سے گزرے تو میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت کے متعلق دریافت کیا اور دریافت کرنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں پلائیں لیکن وہ بھی کچھ کیے بغیر چپکے سے گزر گئےان کے بعد ابو القاسم ﷺ میرے پاس سے گزرے۔ آپ ﷺ نے جب مجھے دیکھا تو مسکرا دیے۔ میرے چہرے کو آپ نے تاڑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6452]
حدیث حاشیہ:
مسجد نبوی کے سائبان کے نیچے ایک چبوترہ بنا دیا گیا تھا جس پر بے گھر بے درمشتاقان علم قرآن وحدیث سکونت رکھتے تھے، یہی اصحاب صفہ تھے۔
ان ہی میں سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حدیث میں آپ کے کھلے ہوئے ایک بابرکت معجزہ کا ذکر ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو بے صبری کا خیا ل کیا تھا کہ دیکھئے دودھ میرے لئے بچتا ہے یا نہیں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے۔
سچ ہے ﴿خُلِقَ الانسانُ ھَلُوعاً﴾
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6452   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6246  
6246. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ اندر داخل ہوا تو آپ نے پیالے میں دودھ دیکھا۔ آپ نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں میرے پاس بلا لاؤ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس آیا اور انہیں بلا لایا، چنانچہ وہ سب آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ جب انہیں اجازت مل گئی تو وہ اندر چلے آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6246]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب کسی کو بلایا جائے تو اس کے آنے کی دو صورتیں ہیں:
ایک یہ کہ وہ قاصد کے ساتھ ہی آ جائے تو اس صورت میں اجازت لینے کی ضرورت نہیں جیسا کہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے۔
اگر وہ قاصد کے ساتھ نہیں آتا بلکہ تنہا آتا ہے تو اسے اجازت لے کر اندر آنا ہو گا جیسا کہ پیش کردہ حدیث میں وضاحت ہے کہ اہل صفہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں آئے بلکہ وہ لوگ ان کے بعد اکیلے آئے ہیں کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں وہ آئے اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بلانے کے بعد اہل صفہ تنہا آئے ہیں، اس لیے انہیں اجازت لینی پڑی۔
اس کی وضاحت ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب کسی کو دعوت دی جائے اور وہ قاصد کے ساتھ ہی آ جائے تو یہی اس کے لیے اجازت ہے۔
(الأدب المفرد، حدیث: 1075) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق یہ مسئلہ پیش آمدہ احوال و ظروف کی روشنی میں حل کیا جا سکتا ہے، تاہم احتیاط کا تقاضا ہے کہ اندر آنے کے لیے اجازت طلب کی جائے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6246   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6452  
6452. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں میں بعض اوقات بھوک كے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا اور بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میں اس راستے پر بیٹھ گیا جہاں صحابہ کرام کی آمد ورفت تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ وہاں سے گزرے تو میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے متعلق پوچھا۔ میرے پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں پلائیں لیکن وہ بغیر کچھ کیے وہاں سے چل دیے۔ پھرحضرت عمر بن خطاب ؓ میرے پاس سے گزرے تو میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت کے متعلق دریافت کیا اور دریافت کرنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں پلائیں لیکن وہ بھی کچھ کیے بغیر چپکے سے گزر گئےان کے بعد ابو القاسم ﷺ میرے پاس سے گزرے۔ آپ ﷺ نے جب مجھے دیکھا تو مسکرا دیے۔ میرے چہرے کو آپ نے تاڑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6452]
حدیث حاشیہ:
(1)
مسجد نبوی میں ایک چبوترہ تھا جس میں بے گھر، بے در اور اہل و عیال کے بغیر کچھ غریب لوگ رہا کرتے تھے جنہیں اصحاب صفہ کہا جاتا ہے۔
ان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہوں نے صرف حصول علم حدیث کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا۔
(2)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھلا معجزہ ہے کہ ستر سے زیادہ اصحاب صفہ صرف ایک پیالے دودھ سے سیر ہو گئے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کچھ بے صبری کا مظاہرہ کیا تھا کہ شاید ان کے لیے دودھ نہ بچے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔
(3)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طویل حدیث سے دور نبوی کی ایک ادنیٰ سی جھلک پیش کی ہے کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا گزر اوقات کیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیش و عشرت کے بجائے فقر و قافے کو ترجیح دیتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:
میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دیکھ لو تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے پھر کہا:
اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔
اس نے اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا۔
آپ نے فرمایا:
اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو فقر و فاقے کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈھال تیار رکھو کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے تو اس کی طرف فقر سیلاب کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے آتا ہے۔
(جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2350)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6452   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.