(موقوف) حدثنا حدثنا هناد، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، حدثنا يزيد بن زياد، عن محمد بن كعب القرظي، حدثني من , سمع علي بن ابي طالب , يقول: " خرجت في يوم شات من بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم , وقد اخذت إهابا معطوبا فحولت وسطه فادخلته عنقي وشددت وسطي، فحزمته بخوص النخل وإني لشديد الجوع ولو كان في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم طعام لطعمت منه، فخرجت التمس شيئا، فمررت بيهودي في مال له وهو يسقي ببكرة له فاطلعت عليه من ثلمة في الحائط، فقال: ما لك يا اعرابي، هل لك في كل دلو بتمرة؟ قلت: نعم، فافتح الباب حتى ادخل، ففتح فدخلت فاعطاني دلوه، فكلما نزعت دلوا اعطاني تمرة حتى إذا امتلات كفي ارسلت دلوه، وقلت: حسبي، فاكلتها ثم جرعت من الماء فشربت، ثم جئت المسجد فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ , سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ , يَقُولُ: " خَرَجْتُ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَدْ أَخَذْتُ إِهَابًا مَعْطُوبًا فَحَوَّلْتُ وَسَطَهُ فَأَدْخَلْتُهُ عُنُقِي وَشَدَدْتُ وَسَطِي، فَحَزَمْتُهُ بِخُوصِ النَّخْلِ وَإِنِّي لَشَدِيدُ الْجُوعِ وَلَوْ كَانَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامٌ لَطَعِمْتُ مِنْهُ، فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ شَيْئًا، فَمَرَرْتُ بِيَهُودِيٍّ فِي مَالٍ لَهُ وَهُوَ يَسْقِي بِبَكَرَةٍ لَهُ فَاطَّلَعْتُ عَلَيْهِ مِنْ ثُلْمَةٍ فِي الْحَائِطِ، فَقَالَ: مَا لَكَ يَا أَعْرَابِيُّ، هَلْ لَكَ فِي كُلِّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَافْتَحْ الْبَابَ حَتَّى أَدْخُلَ، فَفَتَحَ فَدَخَلْتُ فَأَعْطَانِي دَلْوَهُ، فَكُلَّمَا نَزَعْتُ دَلْوًا أَعْطَانِي تَمْرَةً حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ كَفِّي أَرْسَلْتُ دَلْوَهُ، وَقُلْتُ: حَسْبِي، فَأَكَلْتُهَا ثُمَّ جَرَعْتُ مِنَ الْمَاءِ فَشَرِبْتُ، ثُمَّ جِئْتُ الْمَسْجِدَ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
علی بن ابی طالب کہتے ہیں کہ ایک ٹھنڈے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے میں نکلا اور ساتھ میں ایک بدبودار چمڑا لے لیا جس کے بال جھڑے ہوئے تھے، پھر بیچ سے میں نے اسے کاٹ کر اپنی گردن میں ڈال لیا اور اپنی کمر کو کھجور کی شاخ سے باندھ دیا، مجھے بہت سخت بھوک لگی ہوئی تھی، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ کھانا ہوتا تو میں اس میں سے ضرور کھا لیتا، چنانچہ میں کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا، راستے میں ایک یہودی کے پاس سے گزرا جو اپنے باغ میں چرخی سے پانی دے رہا تھا، اس کو میں نے دیوار کی ایک سوراخ سے جھانکا تو اس نے کہا: اعرابی! کیا بات ہے؟ کیا تو ایک کھجور پر ایک ڈول پانی کھینچے گا؟ میں نے کہا: ہاں، اور اپنا دروازہ کھول دو تاکہ میں اندر آ جاؤں، اس نے دروازہ کھول دیا اور میں داخل ہو گیا، اس نے مجھے اپنا ڈول دیا، پھر جب بھی میں ایک ڈول پانی نکالتا تو وہ ایک کھجور مجھے دیتا یہاں تک کہ جب میری مٹھی بھر گئی تو میں نے اس کا ڈول چھوڑ دیا اور کہا کہ اتنا میرے لیے کافی ہے، چنانچہ میں نے اسے کھایا اور دو تین گھونٹ پانی پیا، پھر میں مسجد میں آیا اور وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موجود پایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کی زندگی کس قدر فقر و تنگ دستی سے دو چار تھی، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی حالت تھی، اس فقر و فاقہ کے باوجود کسب حلال کا راستہ اپناتے تھے، اور جو کچھ میسر ہوتا اسی پر قانع ہوتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10338) (ضعیف) (محمد بن کعب قرظی کے استاذ راوی مبہم ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (3 / 109 - 110)
قال الشيخ زبير على زئي: (2473) إسناده ضعيف ”من سمع“ مجهول: لم أعرفه
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2473
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ صحابہ کرام کی زندگی کس قدر فقرو تنگ دستی سے دوچارتھی، یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ کی بھی یہی حالت تھی، اس فقر وفاقہ کے باوجود کسب حلال کا راستہ اپناتے تھے، اور جوکچھ میسر ہوتا اسی پر قانع ہوتے تھے۔
نوٹ: (محمد بن کعب قرظی کے استاذ راوی مبہم ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2473