سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: احوال قیامت، رقت قلب اور ورع
Chapters on the description of the Day of Judgement, Ar-Riqaq, and Al-Wara'
29. باب مِنْهُ
29. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2463
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله، عن يونس، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، وابن المسيب، ان حكيم بن حزام , قال: " سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم قال: " يا حكيم , إن هذا المال خضرة حلوة فمن اخذه بسخاوة نفس بورك له فيه ومن اخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه، وكان كالذي ياكل ولا يشبع، واليد العليا خير من اليد السفلى "، فقال حكيم: فقلت: يا رسول الله , والذي بعثك بالحق لا ارزا احدا بعدك شيئا حتى افارق الدنيا، فكان ابو بكر يدعو حكيما إلى العطاء فيابى ان يقبله، ثم إن عمر دعاه ليعطيه فابى ان يقبل منه شيئا، فقال عمر: إني اشهدكم يا معشر المسلمين على حكيم اني اعرض عليه حقه من هذا الفيء فياب ان ياخذه، فلم يرزا حكيم احدا من الناس شيئا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى توفي , قال: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَابْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ , قَالَ: " سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ: " يَا حَكِيمُ , إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى "، فَقَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى الْعَطَاءِ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، فَقَالَ عُمَرُ: إِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَيَأْبَ أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ شَيْئًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا: حکیم! بیشک یہ مال ہرا بھرا میٹھا ہے، جو اسے خوش دلی سے لے لے گا تو اسے اس میں برکت نصیب ہو گی، اور جو اسے حریص بن کر لے گا اسے اس میں برکت حاصل نہ ہو گی، اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا، اور اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے، حکیم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہو جاؤں، پھر ابوبکر رضی الله عنہ، حکیم رضی الله عنہ کو کچھ دینے کے لیے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے، ان کے بعد عمر رضی الله عنہ نے بھی انہیں کچھ دینے کے لیے بلایا تو اسے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا، چنانچہ عمر رضی الله عنہ نے کہا: اے مسلمانوں کی جماعت! میں تم لوگوں کو حکیم پر گواہ بناتا ہوں کہ اس مال غنیمت میں سے میں ان کا حق پیش کرتا ہوں تو وہ اسے لینے سے انکار کرتے ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکیم رضی الله عنہ نے کسی شخص کے مال سے کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہو گئے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

وضاحت:
۱؎: حکیم بن حزام رضی الله عنہ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر لوگوں سے ان کے لیے ہوئے کو قبول کرنے لگا تو کہیں یہ عادت اس حد سے بڑھ نہ جائے جس کے لینے کی انہیں خواہش نہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس چیز کا بھی انکار کر دیا جو ان کا حق بنتا تھا، یہ دنیا سے بے رغبتی کی اعلی مثال ہے، عمر رضی الله عنہ نے لوگوں کو گواہ اس لیے بنایا تاکہ لوگ ان کے بارے میں یہ نہ کہہ سکیں کہ حکیم رضی الله عنہ کے انکار کی حقیقت کو عمر رضی الله عنہ نہ جان سکے، «واللہ اعلم» ۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 50 (1472)، والوصایا 9 (2750)، وفرض الخمس 19 (3143)، والرقاق 11 (6441)، صحیح مسلم/الزکاة 32 (1035)، سنن النسائی/الزکاة 50 (2532)، و 93 (2602-2604) (تحفة الأشراف: 3426)، وحإ (3/402، 434)، وسنن الدارمی/الزکاة 22 (1660) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

   جامع الترمذي2463موضع إرسالالمال خضرة حلوة من أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه من أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع اليد العليا خير من اليد السفلى
   مسندالحميدي563موضع إرسالإن هذا المال خضرة حلوة فمن أخذه بطيب نفس بورك له فيه، ومن أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه، وكان كالذي يأكل ولا يشبع، واليد العليا خير من اليد السفلى

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2463 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2463  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر لوگوں سے ان کے لیے ہوئے کو قبول کرنے لگا تو کہیں یہ عادت اس حد سے بڑھ نہ جائے جس کے لینے کی انہیں خواہش نہیں،
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس چیز کا بھی انکار کردیا جو ان کا حق بنتا تھا،
یہ دنیا سے بے رغبتی کی اعلی مثال ہے،
عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو گواہ اس لیے بنایا تاکہ لوگ ان کے بارے میں یہ نہ کہہ سکیں کہ حکیم رضی اللہ عنہ کے انکار کی حقیقت کو عمر رضی اللہ عنہ نہ جان سکے۔
(واللہ اعلم)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2463   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:563  
563- سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھے عطا کردیا، میں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ عطا کردیا، میں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ عطا کردیا، میں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ عطا کردیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ مال سر سبز اور میٹھا ہے، جو شخص دل کی خوشی کے ساتھ اسے حاصل کرتا ہے اس کے لئے اس میں برکت رکھی جاتی ہے اور جو شخص لالچ کے ساتھ اسے حاصل کرتا ہے، اس کے لئے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:563]
فائدہ:
اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت زیادہ سخی ہونے کی دلیل ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو خالی نہیں موڑ تے تھے، نیز اس حدیث میں مال کے لالچی کی مذمت بیان کی گئی ہے، انسان کو لالچی نہیں ہونا چاہیے، او پر والے ہاتھ سے مراد خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والے ہاتھ سے مراد ہے کہ بلاوجہ اور بغیر کسی شرعی عذر کے مانگنے والا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 563   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.