(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن عبد الله بن عبيد، عن عديسة بنت اهبان بن صيفي الغفاري، قالت: جاء علي بن ابي طالب إلى ابي، فدعاه إلى الخروج معه، فقال له ابي: إن خليلي وابن عمك " عهد إلي إذا اختلف الناس ان اتخذ سيفا من خشب "، فقد اتخذته فإن شئت خرجت به معك، قالت: فتركه، قال ابو عيسى: وفي الباب عن محمد بن مسلمة، وهذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث عبد الله بن عبيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عُدَيْسَةَ بِنْتِ أُهْبَانَ بْنِ صَيْفِيٍّ الْغِفَارِيِّ، قَالَتْ: جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ إِلَى أَبِي، فَدَعَاهُ إِلَى الْخُرُوجِ مَعَهُ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: إِنَّ خَلِيلِي وَابْنَ عَمِّكَ " عَهِدَ إِلَيَّ إِذَا اخْتَلَفَ النَّاسُ أَنْ أَتَّخِذَ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ "، فَقَدِ اتَّخَذْتُهُ فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ بِهِ مَعَكَ، قَالَتْ: فَتَرَكَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ.
عدیسہ بنت اہبان غفاری کہتی ہیں کہ میرے والد کے پاس علی رضی الله عنہ آئے اور ان کو اپنے ساتھ لڑائی کے لیے نکلنے کو کہا، ان سے میرے والد نے کہا: میرے دوست اور آپ کے چچا زاد بھائی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے وصیت کی کہ ”جب لوگوں میں اختلاف ہو جائے تو میں لکڑی کی تلوار بنا لوں“، لہٰذا میں نے بنا لی ہے، اگر آپ چاہیں تو اسے لے کر آپ کے ساتھ نکلوں، عدیسہ کہتی ہیں: چنانچہ علی رضی الله عنہ نے میرے والد کو چھوڑ دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن عبیداللہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں محمد بن مسلمہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: لکڑی کی تلوار بنانے کا مطلب فتنہ کے وقت قتل و خوں ریزی سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3960
´فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان۔` عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ جب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یہاں بصرہ میں آئے، تو میرے والد (اہبان بن صیفی غفاری رضی اللہ عنہ) کے پاس تشریف لائے، اور کہا: ابو مسلم! ان لوگوں (شامیوں) کے مقابلہ میں تم میری مدد نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور مدد کروں گا، پھر اس کے بعد اپنی باندی کو بلایا، اور اسے تلوار لانے کو کہا: وہ تلوار لے کر آئی، ابو مسلم نے اس کو ایک بالشت برابر (نیام سے) نکالا، دیکھا تو وہ تلوار لکڑی کی تھی، پھر ابو مسلم نے کہا: میرے خلیل اور تمہارے چچا زاد بھائی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3960]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) لکڑی کی تلوار جنگ میں کام نہیں آسکتی۔ لکڑی کی تلوار بنوانے کا مقصد جنگ وجدل سے الگ رہنا ہے۔
(2) مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے موقع پر کسی ایک فریق کا ساھ دینے کی بجائے دونوں میں صلح کرانے کی کوشش کرنا زیادہ ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3960