سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: تقدیر کے احکام و مسائل
Chapters On Al-Qadar
6. باب مَا جَاءَ لاَ يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلاَّ الدُّعَاءُ
6. باب: صرف دعا ہی تقدیر ٹال سکتی ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2139
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد الرازي، وسعيد بن يعقوب، قالا: حدثنا يحيى بن الضريس، عن ابي مودود، عن سليمان التيمي، عن ابي عثمان النهدي، عن سلمان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يرد القضاء إلا الدعاء، ولا يزيد في العمر إلا البر "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي اسيد، وهذا حديث حسن غريب، من حديث سلمان لا نعرفه إلا من حديث يحيى بن الضريس، وابو مودود اثنان: احدهما يقال له فضة، وهو الذي روى هذا الحديث اسمه فضة بصري، والآخر عبد العزيز بن ابي سليمان، احدهما بصري، والآخر مدني، وكانا في عصر واحد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، وَسَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الضُّرَيْسِ، عَنْ أَبِي مَوْدُودٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَلَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي أَسِيدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ سَلْمَانَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ الضُّرَيْسِ، وَأَبُو مَوْدُودٍ اثْنَانِ: أَحَدُهُمَا يُقَالُ لَهُ فِضَّةٌ، وَهُوَ الَّذِي رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ اسْمُهُ فِضَّةٌ بَصْرِيٌّ، وَالْآخَرُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، أَحَدُهُمَا بَصْرِيٌّ، وَالْآخَرُ مَدَنِيٌّ، وَكَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ.
سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی ہے ۱؎ اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث سلمان کی روایت سے حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابواسید سے بھی روایت ہے،
۳- ہم اسے صرف یحییٰ بن ضریس کی روایت سے جانتے ہیں،
۴- ابومودود دو راویوں کی کنیت ہے، ایک کو فضہ کہا جاتا ہے، اور یہ وہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے، ان کا نام فضہ ہے اور دوسرے ابومودود کا نام عبدالعزیز بن ابوسلیمان ہے، ان میں سے ایک بصرہ کے رہنے والے ہیں اور دوسرے مدینہ کے، دونوں ایک ہی دور میں تھے۔

وضاحت:
۱؎: «قضاء» سے مراد امر مقدر ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے: مفہوم یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے ٹالنے میں دعا بےحد موثر ہے، یہاں تک کہ اگر قضاء کا کسی چیز سے لوٹ جانا ممکن ہوتا تو وہ دعا ہوتی، جب کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے: مراد یہ ہے کہ دعا سے قضاء کا سہل و آسان ہو جانا ہے گویا دعا کرنے والے کو یہ احساس ہو گا کہ قضاء نازل ہی نہیں ہوئی، اس کی تائید ترمذی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں دعا جو کچھ قضاء نازل ہو چکی ہے اس کے لیے اور جو نازل نہیں ہوئی ہے اس کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔
۲؎: عمر میں اضافہ اگر حقیقت کے اعتبار سے ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اضافہ اس فرشتہ کے علم کے مطابق ہے جو انسان کے عمر پر مقرر ہے، نہ کہ اللہ کے علم کی طرف نسبت کے اعتبار سے ہے، مثلاً لوح محفوظ میں اگر یہ درج ہے کہ فلاں کی عمر اس کے حج اور عمرہ کرنے کی صورت میں ساٹھ سال کی ہو گی اور حج و عمرہ نہ کرنے کی صورت میں چالیس سال کی ہو گی تو یہ اللہ کے علم میں ہے کہ وہ حج و عمرہ کرے گا یا نہیں، اور علم الٰہی میں رد و بدل اور تغیر نہیں ہو سکتا جب کہ فرشتے کے علم میں جو ہے اس میں تبدیلی کا امکان ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ مؤالف (تحفة الأشراف: 4502) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (154)

قال الشيخ زبير على زئي: (2139) إسناده ضعيف
سيلمان التيمي عنعن (تقدم: 2035) وفي السند علة أخري وللحديث شاھد ضعيف عند ابن ماجه (90،4022)

   جامع الترمذي2139سلمان بن الإسلاملا يرد القضاء إلا الدعاء لا يزيد في العمر إلا البر

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2139 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2139  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
قضاء سے مراد امر مقدر ہے،
کچھ لوگوں کا کہنا ہے:
مفہوم یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے ٹالنے میں دعا بے حد موثر ہے،
یہاں تک کہ اگر قضاء کا کسی چیز سے لوٹ جانا ممکن ہوتا تو وہ دعا ہوتی،
جب کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے:
مراد یہ ہے کہ دعا سے قضا کا سہل وآسان ہوجانا ہے گویا دعا کرنے والے کو یہ احساس ہوگا کہ قضا نازل ہی نہیں ہوئی،
اس کی تائید ترمذی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں دعا جو کچھ قضا نازل ہوچکی ہے اس کے لیے اور جو نازل نہیں ہوئی ہے اس کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔

2؎:
عمر میں اضافہ اگر حقیقت کے اعتبار سے ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اضافہ اس فرشتہ کے علم کے مطابق ہے جو انسان کے عمر پر مقرر ہے،
نہ کہ اللہ کے علم کی طرف نسبت کے اعتبار سے ہے،
مثلا لوح محفوظ میں اگر یہ درج ہے کہ فلاں کی عمر اس کے حج اور عمرہ کرنے کی صورت میں ساٹھ سال کی ہوگی اور حج وعمرہ نہ کرنے کی صورت میں چالیس سال کی ہوگی تو یہ اللہ کے علم میں ہے کہ وہ حج و عمرہ کرے گا یا نہیں،
اورعلم الٰہی میں ردوبدل اور تغیر نہیں ہوسکتا جب کہ فرشتے کے علم میں جو ہے اس میں تبدیلی کا امکان ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2139   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.