سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: ولاء اور ہبہ کے احکام و مسائل
Chapters On Wala' And Gifts
3. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ أَوِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ
3. باب: آزاد کرنے والے کے علاوہ دوسرے کو مالک بنانے اور دوسرے کے باپ کی طرف نسبت کرنے والے کا بیان​۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2127
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم التيمي، عن ابيه، قال: خطبنا علي، فقال: من زعم ان عندنا شيئا نقرؤه إلا كتاب الله وهذه الصحيفة، صحيفة فيها اسنان الإبل، واشياء من الجراحات، فقد كذب، وقال فيها: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المدينة حرام ما بين عير إلى ثور، فمن احدث فيها حدثا او آوى محدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا، ومن ادعى إلى غير ابيه، او تولى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل، وذمة المسلمين واحدة يسعى بها ادناهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو عيسى: وروى بعضهم، عن الاعمش، عن إبراهيم التيمي، عن الحارث بن سويد، عن علي نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ، فَقَالَ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ عِنْدَنَا شَيْئًا نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ وَهَذِهِ الصَّحِيفَةَ، صَحِيفَةٌ فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ، وَأَشْيَاءٌ مِنَ الْجِرَاحَاتِ، فَقَدْ كَذَبَ، وَقَالَ فِيهَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى بَعْضُهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَهُ.
یزید بن شریک تیمی کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ نے ہمارے درمیان خطبہ دیا اور کہا: جو کہتا ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ - جس کے اندر اونٹوں کی عمر اور جراحات (زخموں) کے احکام ہیں - کے علاوہ کوئی اور چیز ہے جسے ہم پڑھتے ہیں تو وہ جھوٹ کہتا ہے ۱؎ علی رضی الله عنہ نے کہا: اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیر سے لے کر ثور تک مدینہ حرم ہے ۲؎ جو شخص اس کے اندر کوئی بدعت ایجاد کرے یا بدعت ایجاد کرنے والے کو پناہ دے، اس پر اللہ، اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس آدمی کی نہ کوئی فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل اور جو شخص دوسرے کے باپ کی طرف اپنی نسبت کرے یا اپنے آزاد کرنے والے کے علاوہ کو اپنا مالک بنائے اس کے اوپر اللہ، اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اس کی نہ فرض عبادت قبول ہو گی اور نہ نفل، مسلمانوں کی طرف سے دی جانے والی پناہ ایک ہے ان کا معمولی شخص بھی اس پناہ کا مالک ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض لوگوں نے «عن الأعمش عن إبراهيم التيمي عن الحارث بن سويد عن علي» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،
۳- یہ حدیث کئی سندوں سے علی کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 39 (111)، وفضائل المدینة 1 (1867)، والجہاد 171 (3047)، والجزیة 10 (3172)، والفرائض 21 (6755)، والدیات 24 (6903)، والإعتصام 5 (7300)، صحیح مسلم/الحج 85 (1370)، سنن ابی داود/ المناسک 99 (2034)، سنن النسائی/القسامة 9، 10 (4748)، سنن ابن ماجہ/الدیات 21 (2658) (تحفة الأشراف: 10317)، و مسند احمد (1/122، 126، 151)، وسنن الدارمی/الدیات 5 (2401)، وانظر أیضا ماتقدم برقم: 1412 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: علی رضی الله عنہ کی اس تصریح سے روافض اور شیعہ کے اس قول کی واضح طور پر تردید ہو رہی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے علی رضی الله عنہ کو کچھ ایسی خاص باتوں کی وصیت کی تھی جن کا تعلق دین و شریعت کے اسرار و رموز سے ہے، کیونکہ صحیح حدیث میں یہ صراحت ہے کہ علی رضی الله عنہ نے فرمایا: «ما عندنا شئ إلا كتاب الله وهذه الصحيفة عن النبي» ۔
۲؎: عیر اور ثور دو پہاڑ ہیں: ثور جبل احد کے پیچھے ایک چھوٹا پہاڑ ہے۔ جب کہ عیر ذوالحلیفہ (ابیار علی) کے پاس ہے، اور یہ دونوں پہاڑ مدینہ کے شمالاً جنوباً ہیں، اور مدینہ کے شرقاً غرباً کالے پتھروں والے دو میدان ہیں، مملکت سعودیہ نے پوری نشان دہی کر کے مدینہ منورہ کے حرم کی حد بندی محراب نما برجیوں کے ذریعے کر دی ہے، «جزاهم الله خيراً»
۳؎: یعنی اس کی دی ہوئی پناہ بھی قابل احترام ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1058)، نقد الكتانى (42)، صحيح أبي داود (1773 و 1774)

   صحيح البخاري3179علي بن أبي طالبالمدينة حرام ما بين عائر إلى كذا من أحدث حدثا آوى محدثا عليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه عدل ولا صرف ذمة المسلمين واحدة يسعى بها أدناهم من أخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل من والى قوم بغير إذن
   صحيح مسلم3794علي بن أبي طالبالمدينة حرم ما بين عير إلى ثور من أحدث فيها حدثا آوى محدثا عليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا ذمة المسلمين واحدة يسعى بها أدناهم من ادعى إلى غير أبيه انتمى إلى غير مواليه عليه لعنة الله والم
   صحيح مسلم3327علي بن أبي طالبالمدينة حرم ما بين عير إلى ثور من أحدث فيها حدثا آوى محدثا عليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا ذمة المسلمين واحدة يسعى بها أدناهم من ادعى إلى غير أبيه انتمى إلى غير مواليه عليه لعنة الله والملائكة
   جامع الترمذي2127علي بن أبي طالبالمدينة حرام ما بين عير إلى ثور من أحدث فيها حدثا آوى محدثا عليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا من ادعى إلى غير أبيه تولى غير مواليه عليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل
   سنن أبي داود2034علي بن أبي طالبالمدينة حرام ما بين عائر إلى ثور من أحدث حدثا آوى محدثا عليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه عدل ولا صرف ذمة المسلمين واحدة يسعى بها أدناهم من أخفر مسلما فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه عدل ولا صرف من تولى قوما بغير إذن
   بلوغ المرام606علي بن أبي طالب‏‏‏‏المدينة حرم ما بين عير إلى ثور
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2127 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2127  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علی رضی اللہ عنہ کی اس تصریح سے روافض اور شیعہ کے اس قول کی واضح طورپر تردید ہورہی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے علی رضی اللہ عنہ کو کچھ ایسی خاص باتوں کی وصیت کی تھی جن کا تعلق دین وشریعت کے اسرار و رموز سے ہے،
کیوں کہ صحیح حدیث میں یہ صراحت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (ما عندنا شئ إلا كتاب الله وهذه الصحيفة عن النبي ﷺ)

2؎:
عیر اور ثور دوپہاڑہیں:
ثور جبل احد کے پیچھے ایک چھوٹا پہاڑ ہے۔
جب کہ عیرذوالحلیفہ (ابیارعلی) کے پاس ہے،
اور یہ دونوں پہاڑمدینہ کے شمالاً جنوباً ہیں،
اورمدینہ کے شرقاً غرباً کالے پتھروں والے دومیدان ہیں،
مملکت سعودیہ نے پوری نشان دہی کرکے مدینہ منورہ کے حرم کی حد بندی محراب نما بُرجیوں کے ذریعے کردی ہے،
 جزاهم الله خيراً۔

3؎:
یعنی اس کی دی ہوئی پناہ بھی قابل احترام ہوگی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2127   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2034  
´مدینہ کے حرم ہونے کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوائے قرآن کے اور اس کے جو اس صحیفے ۱؎ میں ہے کچھ نہیں لکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ حرام ہے عائر سے ثور تک (عائر اور ثور دو پہاڑ ہیں)، جو شخص مدینہ میں کوئی بدعت (نئی بات) نکالے، یا نئی بات نکالنے والے کو پناہ اور ٹھکانا دے تو اس پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو گا اور نہ کوئی نفل، مسلمانوں کا ذمہ (عہد) ایک ہے (مسلمان سب ایک ہیں اگر کوئی کسی کو امان دیدے تو وہ سب کی طرف سے ہو گی) اس (کو نبھانے) کی ادنی سے ادنی شخص بھی کوشش ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2034]
فوائد ومسائل:
1- حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کوئی خاص باطنی علم یا وصیت نہ تھی۔
جو دیگر لوگوں سے مخفی آپ کو دی گئی ہو آپ کے پاس جو کچھ تھا آپ نے اس کا اظہار فرما دیا۔


مدینہ منورہ مذکورہ حدود میں اسی طرح حرم اور محترم ہے۔
جیسے کہ مکہ مکرمہ ہے۔
اور بدعت ہر اعتبار سے ضلالت ہے۔
اور بدعتی انسان کا اکرام بہت بڑا شرعی ظلم ہے۔
مدینہ منورہ میں اس عمل کی شناخت از حد زیادہ ہے۔
کیونکہ یہ دین اسلام کا منبع اور مرکز ہے۔


کفار کے مقابلے میں مسلمان ایک ہیں۔
ان کےادنیٰ فرد کی بھی وہی حیثیت ہے۔
جو ان کے اعلیٰ کی ہے۔


آذاد شدہ غلام (مولیٰ) اجازت لے کر بھی اپنی نسبت ولاء فروخت یا تبدیل نہیں کرسکتا۔
یہ عمل حرام ہے۔
حدیث میںز(بغير إذن مواليه) کا ذکر قید اتفاقی ہے۔
احترازی نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2034   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3327  
ابراہیم تیمی اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا، جس کا یہ گمان ہے کہ ہمارے پاس پڑھنے کے لیے اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ (ان کی تلوار کی نیام کے ساتھ ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا) کے سوا کچھ ہے وہ جھوٹ بولتا ہے، اس صحیفہ میں اونٹوں کی عمروں اور کچھ زخموں (کی دیت) کا ذکر ہے، اور اس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ، عَیر سے لے کر ثَور تک حرم ہے، تو جس نے اس میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3327]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں ہی بعض لوگوں نے یہ بات پھیلا رکھی تھی کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس موجودہ قرآن کے علاوہ کچھ اور علوم بھی ہیں جو صرف آپ کو ہی بتائے گئے ہیں،
اس لیے آپ سے اس کے بارے میں مختلف مواقع پر سوال کیا گیا اور آپ نے بھی مختلف مواقع اور مختلف مناسبتوں سے اس کی تردید اور تکذیب فرمائی،
لیکن اس تصریح کے باوجود بھی بعض لوگوں کا اب بھی یہی دعویٰ ہے کہ نعوذ باللہ قرآن میں بھی کمی کر دی گئی ہے،
جبکہ وہ فرما رہے ہیں ہم بھی وہ کتاب اللہ پڑھتے ہیں جو سب کے پاس ہے،
ہمارے پاس اس سے زائد نہیں ہے اور ان کے صحیفہ کی اشیاء بھی دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مروی ہیں۔

حدیث سے مراد،
جرم یا بدعت ہے اور محدث سے مراد مجرم یا بدعتی ہے۔
جس طرح جرم اور بدعت پرسخت وعید ہے،
اسی طرح بدعتی اور مجرم کو تحفظ اور پناہ دینا بھی شدید جرم ہے،
جس کی بنا پر انسان،
اللہ،
فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
اور جمہور کے نزدیک صرف سے مراد فرض ہے اور عدل سے نفل،
اللہ کی لعنت سے مراد،
اس کی رحمت سے محرومی ہے اور فرشتوں کی لعنت سےمراد،
اس دعا اور استغفار سے محرومی ہے جو وہ مومنوں کے لیے کرتے ہیں۔
جس کی تفصیل سورہ مومن کی آیات 7تا9 میں ہے۔
اور لوگوں کی لعنت سے مراد،
اس کے لیے رحمت سے محرومی کی بد دعا کرنا ہے۔

مسلمانوں کا امان اور پناہ دینا یکساں اور برابر حیثیت رکھتا ہے کوئی بھی مسلمان کسی بھی کافر کو اگر امان اور تحفظ دے دے تو سب مسلمان اس کے پابند ہوں گے،
جمہور کا یہی قول ہے۔

کسی مسلمان کا اپنے نسب کو چھوڑ کر کسی اورخاندان کی طرف نسبت کرنا یا غلام کا اپنے آزاد کرنے والوں کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف نسبت کرنا بھی انتہائی شدید جرم ہے۔

عَیر اور ثَور جنوب شمال مدینہ میں دو پہاڑ ہیں۔
تفصیل کے لیے (دیکھئے فواد عبدالباق کا حاشیہ مسلم ج2 ص 995تا997)
۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3327   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3794  
ابراہیم تیمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں خطاب فرمایا جس میں کہا، جس شخص کا گمان یہ ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور اس نوشتہ (صحیفہ) کے سوا کوئی اور پڑھنے کی چیز ہے، تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور نوشتہ ان کی تلوار کے میان کے ساتھ لٹک رہا تھا، اس میں اونٹوں کی عمروں کا ذکر ہے، اور زخموں کے بارے میں کچھ چیزیں ہیں، اور اس میں یہ بھی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ، عیر سے لے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3794]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث کی توضیح حدیث نمبر1370کے تحت کتاب الحج میں گزر چکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3794   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.