سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
Chapters On Wasaya (Wills and Testament)
6. باب مَا جَاءَ يُبْدَأُ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ
6. باب: قرض کی ادا کرنا وصیت پر مقدم ہے۔
Chapter: What has been Related About Beginning With The Debt Before The Will
حدیث نمبر: 2122
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن ابي إسحاق الهمداني، عن الحارث، عن علي، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " قضى بالدين قبل الوصية "، وانتم تقرون الوصية قبل الدين، قال ابو عيسى: والعمل على هذا عند عامة اهل العلم انه يبدا بالدين قبل الوصية.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ "، وَأَنْتُمْ تُقِرُّونَ الْوَصِيَّةَ قَبْلَ الدَّيْنِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يُبْدَأُ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت (کے نفاذ) سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ فرمایا، جب کہ تم (قرآن میں) قرض سے پہلے وصیت پڑھتے ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عام اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔

وضاحت:
۱؎: اس سے اشارہ قرآن کریم کی اس آیت «من بعد وصية يوصى بها أو دين» (النساء: ۱۲) کی طرف ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2094 (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن ومضى (2189) أتم منه

قال الشيخ زبير على زئي: (2122) إسناده ضعيف / جه 2739
الحارث الأعور ضعيف رافضي (د 908) و أبو إسحاق لم يسمع منه (تقدم: 107) وحديث ابن ماجه (الأصل: 2433) يغني عنه

   جامع الترمذي2094علي بن أبي طالبالدين قبل الوصية أعيان بني الأم يتوارثون دون بني العلات الرجل يرث أخاه لأبيه وأمه دون أخيه لأبيه
   جامع الترمذي2122علي بن أبي طالبالدين قبل الوصية
   سنن ابن ماجه2715علي بن أبي طالبقضى رسول الله بالدين قبل الوصية وأنتم تقرءونها من بعد وصية يوصي بها أو دين
   مسندالحميدي55علي بن أبي طالبقضى أن أعيان بني الأم يتوارثون دون بني العلات
   مسندالحميدي56علي بن أبي طالبقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالدين قبل الوصية وأنتم تقرءون الوصية قبل الدين

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2122 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2122  
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے اشارہ قرآن کریم کی اس آیت ﴿مِنْ بَعْدِ َوصِيَّةٍ يُّوصِى بِهَا أَوْ دَيْن﴾ (النساء: 12) کی طرف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2122   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2715  
´قرض کی ادائیگی وصیت سے پہلے ہو گی۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت سے پہلے قرض (کی ادائیگی) کا فیصلہ فرمایا، حالانکہ تم اس کو قرآن میں پڑھتے ہو: «من بعد وصية يوصي بها أو دين» یہ حصے اس وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو، یا ادائے قرض کے بعد (سورۃ النساء: ۱۱) ۱؎ اور حقیقی بھائی وارث ہوں گے، علاتی نہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2715]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قرض کی اہمیت وصیت کے مقابلے میں اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ قرض زندگی میں بھی واجب الادا ہوتا ہے اور موت کے بعد بھی جبکہ وصیت موت کے بعد ہی قابل عمل ہوتی ہے۔
قرض جتنا بھی ہو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے جب کہ وصیت اگر تہائی ترکے سے زیادہ ہو تو تہائی تک قابل عمل ہوتی ہے، زائد نہیں۔

(2)
میت کے مال سے سب سے پہلے کفن دفن خرچ کیا جاتا ہے، پھر قرض ادا کیا جاتا ہے، پھر جو کچھ بچے اس کے تہائی مال یا اس سے کم کی جو وصیت ہو، وہ پوری کی جاتی ہے۔
اس کے بعد باقی ترکہ وارثوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

(3)
آیت میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے وصیت پوری کی جائے پھر قرض ادا کیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ دونوں چیزیں واجب ہیں۔
ان میں سے جو چیز پائی جائے وہ ادا کی جائے۔
اگر دونوں (وصیت اورقرض)
موجود ہوں تو ترکے میں سے دونوں کی ادائیگی کرنے کے بعد باقی ترکہ تقسیم کیا جائے۔
علاوہ ازیں وصیت کا ذکر پہلے کرنے میں یہ نکتہ بھی ہوسکتا ہے کہ وصیت پر عمل کرنے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ قرض تو لوگ زبردستی بھی وصول کرلیتے ہیں۔
وصیت کو پہلے بیان کرکے واضح کردیا کہ اس پر عمل کرنے میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے، گو اس پرعمل قرض كى ادائیگی کےبعد ہی کیا جائے گا۔

(4)
میت کے سگے بہن بھائی اس کے سوتیلے بہن بھائیوں پرمقدم ہیں۔

(5)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے اور مزید اس کی بابت لکھا ہے کہ اسی مفہوم کی ایک حدیث حسن درجے کی پہلے گزر چکی ہے، وہ اس کی شاہد ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک مذکورہ روایت کی کوئی نہ کوئی اصل ضرورہے۔
علاوہ ازیں بعض محققین نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر حسن درجے تک پہنچ جاتی ہے۔
مزید تفصیل کےلیےدیکھئے: (الإرواء: 6؍107، 109، رقم: 1667)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2715   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2094  
´حقیقی بھائیوں کی میراث کا بیان۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تم لوگ یہ آیت پڑھتے ہو «من بعد وصية توصون بها أو دين» تم سے کی گئی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد (میراث تقسیم کی جائے گی ۱؎) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔ (اگر حقیقی بھائی اور علاتی بھائی دونوں موجود ہوں تو) حقیقی بھائی وارث ہوں گے، علاتی بھائی (جن کے باپ ایک اور ماں دوسری ہو) وارث نہیں ہوں گے، آدمی اپنے حقیقی بھائی کو وارث بناتا ہے علاتی بھائی کو نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2094]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی:
آیت کے سیاق سے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میت کی وصیت پوری کی جائے گی،
پھرا س کا قرض ادا کیا جائے گا،
لیکن رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق پہلے قرض ادا کیا جائے گا،
پھر وصیت کا نفاذ ہو گا،
یہی تمام علماء کا قول بھی ہے۔

نوٹ:
(متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،
ورنہ اس کا راوی حارث اعور ضعیف ہے،
دیکھیے:
الإرواء رقم: 1667)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2094   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:56  
56- سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ دیا ہے، (میت کی) وصیت پر عمل کرنے سے پہلے (اس کے ذمہ واجب الادا) قرض ادا کیا جائے گا، حالانکہ تم لوگ (قرآن میں) وصیت کا ذکر قرض سے پہلے پڑھتے ہو ۱؎۔ ۱؎ (اس سے اشارہ قرآن کریم کی اس آیت «من بعد وصية يوصى بها أو دين» کی طرف ہے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:56]
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ میت کے مال کی تقسیم میں قرض پہلے ادا کرنا چاہیے، پھر اس کے بعد وصیت کو پورا کرنا چاہیے۔ قرآن کریم میں وصیت کو قرض پر مقدم کیا گیا ہے، اس لیے کہ تاکید مراد ہے، کیونکہ وصیت پوری کرنے میں عموما غفلت کی جاتی ہے۔ حدیث میں قرض کا مقدم ہونا ثابت ہے۔ سیدنا علیرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم آیت میں پڑھتے ہو «مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ» حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ فرمایا ہے۔ (سـنـن الترمذی: 2122) امام ترمذی فرماتے ہیں: تمام اہل علم کا یہی موقف ہے کہ وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 56   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.