(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن بكر، حدثنا عبد الحميد بن جعفر، حدثني عتبة بن عبد الله، عن اسماء بنت عميس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سالها: " بم تستمشين؟ " قالت: بالشبرم، قال: " حار جار " قالت: ثم استمشيت بالسنا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لو ان شيئا كان فيه شفاء من الموت لكان في السنا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، يعني: دواء المشي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهَا: " بِمَ تَسْتَمْشِينَ؟ " قَالَتْ: بِالشُّبْرُمِ، قَالَ: " حَارٌّ جَارٌّ " قَالَتْ: ثُمَّ اسْتَمْشَيْتُ بِالسَّنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّ شَيْئًا كَانَ فِيهِ شِفَاءٌ مِنَ الْمَوْتِ لَكَانَ فِي السَّنَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، يَعْنِي: دَوَاءَ الْمَشِيِّ.
اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ”اسہال کے لیے تم کیا لیتی ہو؟“ میں نے کہا: «شبرم»۱؎، آپ نے فرمایا: ”وہ گرم اور بہانے والا ہے“۔ اسماء کہتی ہیں: پھر میں نے «سنا»۲؎ کا مسہل لیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی چیز میں موت سے شفاء ہوتی تو «سنا» میں ہوتی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس سے (یعنی «سنا» سے) مراد دست آور دواء ہے۔
وضاحت: ۱؎: گرم اور سخت قسم کا چنے کے برابر ایک طرح کا دانہ ہوتا ہے۔
۲؎: ایک دست لانے والی دوا کا نام ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 12 (3461) (تحفة الأشراف: 15759) (ضعیف) (اس کی سند میں سخت اضطراب ہے ”زرعة بن عبداللہ، زرعة بن عبدالرحمن“، ”عتبة بن عبداللہ، عبید اللہ“ بہر حال یہ آدمی مجہول ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (4537) // هذا وهم في أصل الشيخ ناصر. وإنما هو رقم مشكاة المصابيح والشيخ ناصر لم يحل على المشكاة. وأما رقم " ضعيف سنن ابن ماجة " فهو (760 - 3461) ومن منا لا يسهو - وانظر " ضعيف الجامع الصغير (4807) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2081) إسناده ضعيف في سماع عتبة من أسماء رضي الله عنھا نظر وانظر ضعيف سنن ابن ماجه (3461)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3461
´دست لانے والی دوا کا بیان۔` اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”تم مسہل کس چیز کا لیتی تھی“؟ میں نے عرض کیا: «شبرم» سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو بہت گرم ہے“، پھر میں «سنا» کا مسہل لینے لگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی چیز موت سے نجات دے سکتی تو وہ «سنا» ہوتی، «سنا» ہر قسم کی جان لیوا امراض سے شفاء دیتی ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3461]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ جبکہ سنا (مکی) کے فوائد کی بابت گزشتہ حدیث 3455 دیکھی جا سکتی ہے۔ جو کہ حسن درجے کی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3461