سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Jihad
32. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُسْتَشْهَدُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ
32. باب: اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے پر قرض ہو تو کیا حکم ہے؟
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1712
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، انه سمعه يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قام فيهم فذكر لهم: ان الجهاد في سبيل الله، والإيمان بالله، افضل الاعمال، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، ارايت إن قتلت في سبيل الله، يكفر عني خطاياي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نعم، إن قتلت في سبيل الله وانت صابر محتسب مقبل غير مدبر "، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كيف قلت؟ "، قال: ارايت إن قتلت في سبيل الله، ايكفر عني خطاياي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نعم، وانت صابر محتسب مقبل غير مدبر، إلا الدين، فإن جبريل قال لي ذلك "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن انس، ومحمد بن جحش، وابي هريرة، وهذا حديث حسن صحيح، وروى بعضهم هذا الحديث عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، وروى يحيى بن سعيد الانصاري، وغير واحد هذا، عن سعيد المقبري، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهذا اصح من حديث سعيد المقبري، عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَامَ فِيهِمْ فَذَكَرَ لَهُمْ: أَنَّ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْإِيمَانَ بِاللَّهِ، أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يُكَفِّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ، إِنْ قُتِلْتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ قُلْتَ؟ "، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَيُكَفِّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ، وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ، إِلَّا الدَّيْنَ، فَإِنَّ جِبْرِيلَ قَالَ لِي ذَلِكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے بیچ کھڑے ہو کر ان سے بیان کیا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے افضل عمل ہے ۱؎، (یہ سن کر) ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں، تو کیا میرے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اگر تم اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے اس حال میں کہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے ہو، آگے بڑھنے والے ہو، پیچھے مڑنے والے نہ ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کیسے کہا ہے؟ عرض کیا: آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اگر تم صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے ہو اور آگے بڑھنے والے ہو پیچھے مڑنے والے نہ ہو، سوائے قرض کے ۲؎، یہ مجھ سے جبرائیل نے (ابھی) کہا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث بسند «سعيد المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے، یحییٰ بن سعید انصاری اور کئی لوگوں نے اس کو بسند «سعيد المقبري عن عبد الله ابن أبي قتادة عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» سے روایت کی ہے، یہ روایت سعید مقبری کی روایت سے جو بواسطہ ابوہریرہ آئی ہے، زیادہ صحیح ہے،
۴- اس باب میں انس، محمد بن جحش اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

وضاحت:
۱؎: افضل اعمال کے سلسلہ میں مختلف احادیث میں مختلف اعمال کو افضل بتایا گیا ہے، اس کی مختلف توجیہیں کی گئی ہیں، ان احادیث میں «أفضل الأعمال» سے پہلے «من» پوشیدہ مانا جائے، مفہوم یہ ہو گا کہ یہ اعمال افضل ہیں، یا ان کا تذکرہ احوال واوقات اور جگہوں کے مختلف ہونے کے اعتبار سے ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مخاطب کی روسے مختلف اعمال کی افضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔
۲؎: یعنی وہ قرض جس کی ادائیگی کی نیت نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 32 (1885)، (تحفة الأشراف: 12098)، وط/الجہاد 14 (31)، و مسند احمد (5/297، 304، 308)، سنن الدارمی/الجہاد 21 (2456) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1197)

   صحيح مسلم4880حارث بن ربعيإن قتلت في سبيل الله وأنت صابر محتسب مقبل غير مدبر ثم قال رسول الله كيف قلت قال أرأيت إن قتلت في سبيل الله أتكفر عني خطاياي فقال رسول الله نعم وأنت صابر محتسب مقبل غير مدبر إلا الدين فإن جبريل قا
   جامع الترمذي1712حارث بن ربعيإن قتلت في سبيل الله وأنت صابر محتسب مقبل غير مدبر ثم قال رسول الله كيف قلت قال أرأيت إن قتلت في سبيل الله أيكفر عني خطاياي فقال رسول الله نعم وأنت صابر محتسب مقبل غير مدبر إلا الدين فإن جبريل قال لي ذلك
   سنن النسائى الصغرى3158حارث بن ربعينعم إلا الدين كذلك قال لي جبريل
   سنن النسائى الصغرى3159حارث بن ربعيإن قتلت في سبيل الله وأنت صابر محتسب مقبل غير مدبر إلا الدين فإن جبريل قال لي ذلك
   سنن النسائى الصغرى3160حارث بن ربعينعم فلما أدبر دعاه فقال هذا جبريل يقول إلا أن يكون عليك دين
   مسندالحميدي429حارث بن ربعينعم
   مسندالحميدي430حارث بن ربعي

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1712 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1712  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
افضل اعمال کے سلسلہ میں مختلف احادیث میں مختلف اعمال کو افضل بتایاگیا ہے،
اس کی مختلف توجیہیں کی گئی ہیں،
ان احادیث میں أفضل الأعمال سے پہلے من پوشیدہ مانا جائے،
مفہوم یہ ہوگا کہ یہ اعمال افضل ہیں،
یا ان کا تذکرہ احوال واوقات اور جگہوں کے مختلف ہونے کے اعتبار سے ہے،
یہ بھی کہا جاتاہے کہ مخاطب کی روسے مختلف اعمال کی افضلیت کو بیان کیاگیا ہے۔
2؎:
یعنی وہ قرض جس کی ادائیگی کی نیت نہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1712   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3160  
´مقروض شخص کا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس وقت آپ منبر پر (کھڑے خطاب فرما رہے) تھے، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر میں اپنی تلوار اللہ کے راستے میں چلاؤں، ثابت قدمی کے ساتھ، بہ نیت ثواب، سینہ سپر رہوں پیچھے نہ ہٹوں یہاں تک کہ قتل کر دیا جاؤں تو کیا اللہ تعالیٰ میرے سبھی گناہوں کو مٹا دے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، پھر جب وہ جانے کے لیے مڑا، آپ نے اسے بلایا اور کہا: یہ جبرائی [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3160]
اردو حاشہ:
واجب الادا حقوق عربی عبارت میں دَیْنَ استعمال فرمایا گیا ہے جس کے معنی عموماً قرض کے کرلیے جاتے ہیں مگر یہ اس کے حقیقی معنی نہیں بلکہ اس کی ایک صورت ہے۔ دَیْنَ سے مراد وہ حق ہے جو کسی کے ذمے دوسرے کے لیے واجب الادا ہو‘ خواہ وہ قرض ہو یا کسی پر زیادتی کی ہو‘ جب کہ قرض تو یہ ہے کہ کسی سے کوئی چیز عاریتاً لی ہو اور اسے مدت مقرر پر واپس کرنا ہو۔ ضرورت کے موقع پر قرض لینا جائز ہے۔ خود رسول اللہﷺ نے لیا ہے‘ البتہ وقت مقرر پر‘ باوجود وسعت کے‘ ادا نہ کرنا یا لینا یا لیتے وقت ہی عدم ادائیگی کی نیت رکھنا جرم ہے۔ ادائیگی کی نیت ہو عدم وسعت کی بنا پر ادا نہ کرسکے تو یہ جرم نہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: 3157)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3160   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4880  
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ان کے درمیان وعظ کے لیے کھڑے ہوئے اور بیان فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد اور اللہ پر ایمان سب سے بہتر عمل ہے۔ تو ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا، یا رسول اللہﷺ! مجھے بتائیے، اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں، تو کیا مجھے میرے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ہاں، اگر تو اللہ کی راہ میں، صابر اور ثواب کی نیت کرتے ہوئے، سامنے منہ کر کے، پشت دکھا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4880]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایمان باللہ دین کی بنیاد اور اساس ہے،
اس کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے اور ارکان خمسہ میں سے یہ اساس ہے اور جہاد اگرچہ ارکان خمسہ میں داخل نہیں ہے،
لیکن یہ ان کا محافظ ہے اور دین کی اقامت اس کے بغیر ممکن نہیں ہے،
لیکن حقوق العباد کا مارنا اتنا سنگین جرم ہے،
کہ جہاد جیسی عظیم چیز بھی اس کی تلافی نہیں کر سکتی،
لیکن آج لوگوں کا پیسہ کھانا اور ان کے حقوق پامال کرنا حقیر عمل سمجھا جاتا ہے اور لوگوں کے مال و جائیداد ہڑپ کرنے کے لیے قبضہ گروپ دندناتے پھرتے ہیں،
کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے،
نیز اگر مال کا ہڑپ کرنا معاف نہیں ہو سکتا،
تو قتل اور خون بہانا کیسے معاف ہو سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4880   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.