(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا حيوة بن شريح، قال: اخبرني ابو هانئ الخولاني، ان عمرو بن مالك الجنبي اخبره، انه سمع فضالة بن عبيد يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: " كل ميت يختم على عمله إلا الذي مات مرابطا في سبيل الله، فإنه ينمى له عمله إلى يوم القيامة، ويامن من فتنة القبر "، وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " المجاهد من جاهد نفسه "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن عقبة بن عامر، وجابر، وحديث فضالة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " كُلُّ مَيِّتٍ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الَّذِي مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ يُنْمَى لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَيَأْمَنُ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ "، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَجَابِرٍ، وَحَدِيثُ فَضَالَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
فضالہ بن عبید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر میت کے عمل کا سلسلہ بند کر دیا جاتا ہے سوائے اس شخص کے جو اللہ کے راستے میں سرحد کی پاسبانی کرتے ہوئے مرے، تو اس کا عمل قیامت کے دن تک بڑھایا جاتا رہے گا اور وہ قبر کے فتنہ سے مامون رہے گا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا: مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- فضالہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عقبہ بن عامر اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی نفس امارہ جو آدمی کو برائی پر ابھارتا ہے، وہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے، خواہشات نفس کا تابع نہیں ہوتا اور اطاعت الٰہی میں جو مشکلات اور رکاوٹیں آتی ہیں، ان پر صبر کرتا ہے، یہی جہاد اکبر ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1621
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی نفس امارہ جوآدمی کو برائی پر ابھارتا ہے، وہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے، خواہشات نفس کا تابع نہیں ہوتا اور اطاعت الٰہی میں جو مشکلات اور رکاوٹیں آتی ہیں، ان پر صبر کرتاہے، یہی جہاد اکبر ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1621
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2500
´سرحد کی پاسبانی اور حفاظت کی فضیلت کا بیان۔` فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر میت کا عمل مرنے کے بعد ختم کر دیا جاتا ہے، سوائے سرحد کی پاسبانی اور حفاظت کرنے والے کے، اس کا عمل اس کے لیے قیامت تک بڑھتا رہے گا اور قبر کے فتنہ سے وہ مامون کر دیا جائے گا۔“[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2500]
فوائد ومسائل: یہ فضیلت دشمن کے سامنے مورچہ بند ہونے کی ہے۔ تو جو شخص کفار سے پنجہ آزمائی کرتا۔ اور قتل ہوتا یا قتل کرتا ہو۔ اس کے درجات اور بھی زیادہ ہوں گے۔ قرآن مجید نے اس عمل کی ترغیب میں فرمایا ہے۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٢٠٠﴾(آل عمران۔ 200)”اے ایمان والو! صبر کرو۔ ثابت قدم رہو۔ مورچوں پرجمے رہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ تاکہ کامیاب ہوجائو“ جہاد قتال سے ملتا جلتا کام مثلا مشکل حالات میں اشاعت توحید وسنت اوررد شرک وبدعت جو کہ درس وتدریس اور تحریروتقریر کے ذریعے سے ہو اس کے متعلق بھی توقع کی جانی چاہیے۔ کہ حسب نیت یہ بھی ایک عظیم رباط ومرابطہ ہے۔ چنانچہ اساتذہ مبلغین اور مولفین قلعہ اسلام کی فکری حدود کے مورچہ بند ہیں جب تک ان کی باقیات۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2500